Kaifi Wijdani

کیفی وجدانی

معروف شاعر/ ممتاز مابعد جدید شاعر شارق کیفی کے والد

Well-known poet / Father of prominent post-modern poet Shariq Kaifi

کیفی وجدانی کی غزل

    پھر ایک بار ترا تذکرہ نکل آیا

    پھر ایک بار ترا تذکرہ نکل آیا مجھے تراشا تو پیکر ترا نکل آیا یہ میرے گھر کے دریچوں میں روشنی کیسی یہاں چراغ کا کیا سلسلہ نکل آیا جو نقش نقش اسیری کا سحر جانتے تھے ان آئینوں سے بھی سایا مرا نکل آیا میں اپنے شور میں کب تک دبا ہوا رہتا صدائیں دیتا ہوا بے صدا نکل آیا لپٹ کے روتا ...

    مزید پڑھیے

    جب خیمہ زنو! زور ہواؤں کا گھٹے گا

    جب خیمہ زنو! زور ہواؤں کا گھٹے گا خوں میری ہتھیلی کا طنابوں پہ ملے گا ہو پیاس تو خود اپنے ہی ہونٹوں کا لہو چوس سوکھی ہوئی جھیلوں میں تجھے کچھ نہ ملے گا جلتے ہوئے رستوں کے لیے دیکھ لیا کر کھڑکی نہ کھلے گی تو دھواں اور گھٹے گا بستی میں غریبوں کی جہاں آگ لگی تھی سنتے ہیں وہاں ایک ...

    مزید پڑھیے

    تو اک قدم بھی جو میری طرف بڑھا دیتا

    تو اک قدم بھی جو میری طرف بڑھا دیتا میں منزلیں تری دہلیز سے ملا دیتا خبر تو دیتا مجھے مجھ کو چھوڑ جانے کی میں واپسی کا تجھے راستہ بتا دیتا مجھے تو رہنا تھا آخر حد تعین میں وہ پاس آتا تو میں فاصلہ بڑھا دیتا ہم ایک تھے تو ہمیں بے صدا ہی رہنا تھا پکارتا وہ کسے میں کسے صدا دیتا وہ ...

    مزید پڑھیے

    وہ سرد فاصلہ بس آج کٹنے والا تھا

    وہ سرد فاصلہ بس آج کٹنے والا تھا میں اک چراغ کی لو سے لپٹنے والا تھا بہت بکھیرا مجھے مرے مہربانوں نے مرا وجود ہی لیکن سمٹنے والا تھا بچا لیا تری خوشبو کے فرق نے ورنہ میں تیرے وہم میں تجھ سے لپٹنے والا تھا اسی کو چومتا رہتا تھا وہ کہ اس کو بھی عزیز تھا وہی بازو جو کٹنے والا ...

    مزید پڑھیے

    وہ آج لوٹ بھی آئے تو اس سے کیا ہوگا

    وہ آج لوٹ بھی آئے تو اس سے کیا ہوگا اب اس نگاہ کا پتھر سے سامنا ہوگا زمیں کے زخم سمندر تو بھر نہ پائے گا یہ کام دیدۂ تر تجھ کو سونپنا ہوگا ہزار نیزے ادھر اور میں ادھر تنہا مری شکست کا عنواں ہی دوسرا ہوگا جو تیز دھوپ میں سایوں کی فصل بوتے ہیں یہاں کی آب و ہوا کا انہیں پتہ ...

    مزید پڑھیے

    آئنہ تھا تو جو چہرہ تھا مرا اپنا تھا

    آئنہ تھا تو جو چہرہ تھا مرا اپنا تھا مجھ میں جو عکس بھی اترا تھا مرا اپنا تھا وہ جو آہٹ تھی کوئی روپ نہیں دھار سکی وہ جو دیوار پہ سایا تھا مرا اپنا تھا وہ جو ہونٹوں پہ تپن سی تھی وہ میری ضد تھی وہ جو دریاؤں پہ پہرا تھا مرا اپنا تھا میرے رستے میں جو رونق تھی میرے فن کی تھی میرے گھر ...

    مزید پڑھیے

    خود ہی اچھالوں پتھر خود ہی سر پر لے لوں

    خود ہی اچھالوں پتھر خود ہی سر پر لے لوں جب چاہوں سونے موسم سے منظر لے لوں آئینہ سے میرا قاتل مجھ کو پکارے لاؤ میں بھی اپنے ہاتھوں پتھر لے لوں جن رستوں نے جان و دل پر زخم سجائے ان رستوں سے پوجنے والے پتھر لے لوں میں شنکر سے زہر کا پیالہ چھین کے پی لوں لہجے کے اس کرب میں سارے منظر ...

    مزید پڑھیے

    خود سے ملنے کے لیے خود سے گزر کر آیا

    خود سے ملنے کے لیے خود سے گزر کر آیا کس قدر سخت مہم تھی کہ جو سر کر آیا لاش ہوتا تو ابھر آتا کی اک میں ہی کیا سطح پر کوئی بھی پتھر نہ ابھر کر آیا صرف دروازے تلک جا کے ہی لوٹ آیا ہوں ایسا لگتا ہے کہ صدیوں کا سفر کر آیا چاند قدموں پہ پڑا مجھ کو بلاتا ہی رہا میں ہی خود بام سے اپنے نہ ...

    مزید پڑھیے