Kaifi Kakorvi

کیفی کاکوروی

  • 1852 - 1928

کیفی کاکوروی کا شمار اپنے زمانہ کے اجھے کہنہ مشق شاعروں اور نثر ناگروں میں ہوتا تھا

کیفی کاکوروی کی غزل

    درویش ہوں جو گنج میسر نہیں تو کیا

    درویش ہوں جو گنج میسر نہیں تو کیا دل سے غنی ہوں پاس مرے زر نہیں تو کیا لاکھوں صدائے صور ہیں پازیب یار میں چھم چھم کا شور فتنۂ محشر نہیں تو کیا سیلاب اشک موجۂ طوفان نوح ہے آنکھوں میں بند سات سمندر نہیں تو کیا رنگ حنا سے ہاتھ بتوں کے ہیں لال لال پھر یہ ہمارے خون کا محضر نہیں تو ...

    مزید پڑھیے

    اے شیخ تیری پند و نصیحت سے کیا ہوا

    اے شیخ تیری پند و نصیحت سے کیا ہوا کمبخت چھوٹتا ہے کہیں دل لگا ہوا شرم و حیا کو چھوڑیئے برقع اٹھائیے کب تک رہے گا چاند گہن میں دیا ہوا مانگا تھا بوسہ آپ سے لے تو نہیں لیا برہم ہو کیوں بتائیے نقصان کیا ہوا دعویٰ ہمارے دل پہ بتوں کو ہے کس لئے کیا ان کے ہاتھ بیع ہوا یا ہبہ ہوا بوسہ ...

    مزید پڑھیے

    دل کو صبر و قرار بھی نہ ہوا

    دل کو صبر و قرار بھی نہ ہوا جبر پر اختیار بھی نہ ہوا لالہ ہر چند باغ میں پھولا گل رخوں میں شمار بھی نہ ہوا مر مٹے فکر میں عروج کے ہم خاک اونچا غبار بھی نہ ہوا رہ گیا تیر یار پہلو میں کیا ستم ہے کہ پار بھی نہ ہوا خون سے میرے دامن قاتل تختہ لالہ زار بھی نہ ہوا مے سے مجھ کو خمار بھی ...

    مزید پڑھیے

    دے چکے دل تو پھر اب دل پر اجارا کیسا

    دے چکے دل تو پھر اب دل پر اجارا کیسا ہم سمجھتے ہیں ہمارا ہے ہمارا کیسا ہر ادا بانکی ہے ہر ناز سے پیارا کیسا دل میں رکھ لیجئے انداز ہے سارا کیسا سرخ پوشاک وہ پہنیں گے خدا خیر کرے آج مریخ کا چمکے گا ستارا کیسا مجھ کو یہ لطف کہ وہ شرط میں بوسے جیتے ان کو یہ شرم کہ میں جیت میں ہارا ...

    مزید پڑھیے