درویش ہوں جو گنج میسر نہیں تو کیا
درویش ہوں جو گنج میسر نہیں تو کیا
دل سے غنی ہوں پاس مرے زر نہیں تو کیا
لاکھوں صدائے صور ہیں پازیب یار میں
چھم چھم کا شور فتنۂ محشر نہیں تو کیا
سیلاب اشک موجۂ طوفان نوح ہے
آنکھوں میں بند سات سمندر نہیں تو کیا
رنگ حنا سے ہاتھ بتوں کے ہیں لال لال
پھر یہ ہمارے خون کا محضر نہیں تو کیا
لاکھوں ہیں معجزے لب جاں بخش یار میں
رشک مسیح ہیں وہ پیمبر نہیں تو کیا
سر خوش ہیں ہم خیال میں اک چشم مست کے
ساقی ہمارے دور میں ساغر نہیں تو کیا
موزوں کلام پاک بیان خوش خیال ہے
کیفیؔ سخن شناس سخنور نہیں تو کیا