Kaifi Hyderabadi

کیفی حیدرآبادی

  • 1880 - 1920

کیفی حیدرآبادی کی غزل

    وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے

    وہ امنگیں ہیں نہ وہ دل ہے نہ اب وہ جوش ہے حسن بار چشم ہے نغمہ وبال گوش ہے میں کہوں تو کیا کہوں اب وہ کہے تو کیا کہے دے کے دل خاموش ہوں وہ لے کے دل خاموش ہے اے وفور شادمانی یہ سمجھ لینے تو دے کیا ہمیں ہیں جس سے وہ ہم بزم ہم آغوش ہے اس طرف دل پر جگر پر اس طرف رہتا ہے ہاتھ اپنی ہر کروٹ ...

    مزید پڑھیے

    عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے

    عرصۂ ہر دو جہاں عالم تنہائی ہے کہ جدھر دیکھیے تو ہے تری یکتائی ہے بے نیازی ہے خود آرائی ہے خود رائی ہے آپ کی جانے بلا کون تمنائی ہے پاتے ہیں لطف حیات ابدی تیرے شہید ذبح کرنا ترا اعجاز مسیحائی ہے تم کو کیفیؔ سے تعلق تو نہ ہوگا لیکن جان پہچان ملاقات شناسائی ہے

    مزید پڑھیے

    ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے

    ہر طور ہر طرح کی جو ذلت مجھی کو ہے دنیا میں کیا کسی سے محبت مجھی کو ہے خود میں نے اپنے آپ کو بد نام کر دیا ثابت ہوا کہ مجھ سے عداوت مجھی کو ہے تم بھی تو روز دیکھتے رہتے ہو آئینہ سچ بولو کیا پسند یہ صورت مجھی کو ہے تم کو تو کچھ ضرور نہیں پاس دوستی ہاں یہ ضرور ہے کہ ضرورت مجھی کو ...

    مزید پڑھیے

    طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر (ردیف .. ن)

    طریق عشق میں دیکھا ہے کیا کہیں کیوں کر ہماری آنکھ کھلی ہے مقام حیرت میں اگر خلل ہے تو زاہد مرے دماغ میں ہے ہزار شکر نہیں ہے فتور نیت میں بلند و پست کی اس کے کچھ انتہا ہی نہیں عجیب چیز ہے انسان بھی حقیقت میں یہ بزم غیر ہے کیفیؔ کدھر گئے ہیں حواس کہاں تم آ گئے کیا آ گئی طبیعت میں

    مزید پڑھیے

    نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی

    نثار اس پر نہ ہونے سے نہ تنگ آیا نہ عار آئی مرے کس کام آخر زندگئ مستعار آئی یہیں دیکھا کہ غلبہ ایک کو ہوتا ہے لاکھوں پر طبیعت ایک بار آئی ندامت لاکھ بار آئی ترے دل سے ترے لب تک تری آنکھوں سے مژگاں تک محبت بے قرار آئی مروت شرمسار آئی شراب عشق سے کرنے کو تھا توبہ کہ یار آیا مرے آڑے ...

    مزید پڑھیے

    گنجائش کلام کہاں خیر و شر میں ہے

    گنجائش کلام کہاں خیر و شر میں ہے جب تم بشر میں ہو تو سبھی کچھ بشر میں ہے یوں تو ذلیل و خوار ہر اک کی نظر میں ہے بندے کی شان چشم حقیقت نگر میں ہے غم خوار بن گئے ہیں چھڑکتے تھے جو نمک کچھ ایسی چاشنی مرے زخم جگر میں ہے ارض و سما ہے وقف نگاہ امید و یاس دنیا کی اونچ نیچ ہماری نظر میں ...

    مزید پڑھیے