Kafeel Aazar Amrohvi

کفیل آزر امروہوی

فلم نغمہ نگار ، اپنی نظم ’ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘ کے لئے مشہور، جسے جگجیت سنگھ نے آواز دی تھی

Poet and lyricist. Famous for his nazm "baat niklegi to phir door talak jayegi" sung by Jagjit Singh.

کفیل آزر امروہوی کی نظم

    اکیلے کمرے میں

    ابھی سے ان کے لیے اتنی بے قرار نہ ہو کیا ہے مجھ کو بہت بے قرار چھیڑا ہے تمہارے شعر سنا کر تمہارے سر کی قسم سہیلیوں نے مجھے بار بار چھیڑا ہے کشش نہیں ہے تمہارے بنا بہاروں میں یہ چھت یہ چاند ستارے اداس لگتے ہیں چمن کا رنگ نسیم سحر گلاب کے پھول نہیں ہو تم تو یہ سارے اداس لگتے ہیں خبر ...

    مزید پڑھیے

    شرنارتھی

    خواب شب کی منڈیروں پہ بیٹھے ہوئے گھورتے ہیں مجھے میری آنکھوں میں بسنے کو بے چین ہیں میں اسی خوف سے رات بھر جاگتا ہوں کہ میں سو گیا گر تو یہ میری آنکھوں میں بس جائیں گے اور کل ان کی قیمت چکانی پڑے گی مجھے

    مزید پڑھیے

    لوری

    اے مرے نور نظر لخت جگر جان سکوں نیند آنا تجھے دشوار نہیں ہے سو جا ایسے بد بخت زمانے میں ہزاروں ہوں گے جن کو لوری بھی میسر نہیں آتی ہوگی میری لوری سے تری بھوک نہیں مٹ سکتی میں نے مانا کہ تجھے بھوک ستاتی ہوگی لیکن اے میری امیدوں کے حسیں تاج محل میں تری بھوک کو لوری ہی سنا سکتی ...

    مزید پڑھیے

    نیا سال

    زندگی کے پیڑ سے ایک پتا اور گر کر ڈھیر میں گم ہو گیا ہے ڈھیر ان پتوں کا جو پہلے گرے تھے ہنس رہا ہے زندگی کا پیڑ خوش ہے جیسے اس کا بوجھ ہلکا ہو گیا ہے

    مزید پڑھیے

    دوراہے

    کب تلک خوابوں سے دھوکہ کھاؤ گی کب تلک اسکول کے بچوں سے دل بہلاؤ گی کب تلک منا سے شادی کے کرو گی تذکرے خواہشوں کی آگ میں جلتی رہو گی کب تلک چھٹیوں میں کب تلک ہر سال دلی جاؤ گی کب تلک شادی کے ہر پیغام کو ٹھکراؤ گی چائے میں پڑتا رہے گا اور کتنے دن نمک بند کمرے میں پڑھو گی اور کتنے دن ...

    مزید پڑھیے

    مشورہ

    کسی کی یاد ستاتی ہے رات دن تم کو کسی کے پیار سے مجبور ہو گئی ہو تم تمہارا درد مجھے بھی اداس رکھتا ہے قریب آ کے بہت دور ہو گئی ہو تم تمہاری آنکھیں سدا سوگوار رہتی ہیں تمہارے ہونٹ ترستے ہیں مسکرانے کو تمہاری روح کو تنہائیاں عطا کر کے یہ سوچتی ہو کہ کیا مل گیا زمانے کو گلہ کرو نہ ...

    مزید پڑھیے

    رہائی

    سنا ہے کہ بوڑھی حویلی میں ہر شب بھٹکتی ہے اک روح جس کے بدن پر پرانی روایات کے کھوکھلے پن کا ملبوس ہے جس کی پیشانی کے زخم سے خون بہتا ہے ماضی کی تہذیب کا اور وہ چیختی ہے کہ بوڑھی حویلی سے اس کو نکالو پرانی روایات کے کھوکھلے پن کے ملبوس کو پھاڑ ڈالو سنو شہر والو

    مزید پڑھیے

    نہ جانے کیا ہو

    بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی لوگ بے وجہ اداسی کا سبب پوچھیں گے یہ بھی پوچھیں گے کہ تم اتنی پریشاں کیوں ہو انگلیاں اٹھیں گی سوکھے ہوئے بالوں کی طرف اک نظر دیکھیں گے گزرے ہوئے سالوں کی طرف چوڑیوں پر بھی کئی طنز کئے جائیں گے کانپتے ہاتھوں پہ فقرے بھی کسے جائیں گے لوگ ظالم ہیں ...

    مزید پڑھیے

    اعتماد

    میں نے سوچا تھا کہ اس بار تمہاری باہیں میری گردن میں بصد شوق حمائل ہوں گی مشکلیں راہ محبت میں نہ حائل ہوں گی میں نے سوچا تھا کہ اس بار نگاہوں کے سلام آئیں گے اور بہ انداز دگر آئیں گے پھول ہی پھول فضاؤں میں بکھر جائیں گے میں نے سوچا تھا کہ اس بار تمہاری سانسیں میری بہکی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    کھنڈر

    کیسی خاموشی ہے ویرانی ہے سناٹا ہے کوئی آہٹ ہے نہ آواز نہ کوئی دھڑکن دل ہے یا قبر سلگتی ہوئی تنہائی کی ذہن ہے یا کسی بیوہ کا اکیلا آنگن اڑ گیا رنگ ہر اک سوچ کے آئینے کا شب کے بے نور دوپٹے سے ستارے ٹوٹے جم گئی گرد خیالوں کی حسیں راہوں پر مدتیں ہو گئیں امید کا دامن چھوٹے یک بیک دور بہت ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2