Kafeel Aazar Amrohvi

کفیل آزر امروہوی

فلم نغمہ نگار ، اپنی نظم ’ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘ کے لئے مشہور، جسے جگجیت سنگھ نے آواز دی تھی

Poet and lyricist. Famous for his nazm "baat niklegi to phir door talak jayegi" sung by Jagjit Singh.

کفیل آزر امروہوی کی غزل

    آج میں نے اسے نزدیک سے جا دیکھا ہے

    آج میں نے اسے نزدیک سے جا دیکھا ہے وہ دریچہ تو مرے قد سے بہت اونچا ہے اپنے کمرے کو اندھیروں سے بھرا پایا ہے تیرے بارے میں کبھی غور سے جب سوچا ہے ہر تمنا کو روایت کی طرح توڑا ہے تب کہیں جا کے زمانہ مجھے راس آیا ہے تم کو شکوہ ہے مرے عہد محبت سے مگر تم نے پانی پہ کوئی لفظ کبھی لکھا ...

    مزید پڑھیے

    تم سے راہ و رسم بڑھا کر دیوانے کہلائیں کیوں

    تم سے راہ و رسم بڑھا کر دیوانے کہلائیں کیوں جن گلیوں میں پتھر برسیں ان گلیوں میں جائیں کیوں ویسے ہی تاریک بہت ہیں لمحے غم کی راتوں کے پھر میرے خوابوں میں یارو وہ گیسو لہرائیں کیوں مجبوروں کی اس بستی میں کس سے پوچھیں کون بتائے اپنا محلہ بھول گئی ہیں بے چاری لیلائیں کیوں مستقبل ...

    مزید پڑھیے

    رات بھر چاند کی گلیوں میں پھراتی ہے مجھے

    رات بھر چاند کی گلیوں میں پھراتی ہے مجھے زندگی کتنے حسیں خواب دکھاتی ہے مجھے ان دنوں عشق کی فرصت ہی نہیں ہے ورنہ اس دریچے کی اداسی تو بلاتی ہے مجھے توڑ دیتا ہوں کہ یہ بھی کہیں دھوکا ہی نہ ہو جام میں جب تری صورت نظر آتی ہے مجھے دن اسی فرق کے جنگل میں گزر جاتا ہے رات یادوں کا وہی ...

    مزید پڑھیے

    اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے

    اس کی آنکھوں میں اتر جانے کو جی چاہتا ہے شام ہوتی ہے تو گھر جانے کو جی چاہتا ہے کسی کم ظرف کو با ظرف اگر کہنا پڑے ایسے جینے سے تو مر جانے کو جی چاہتا ہے ایک اک بات میں سچائی ہے اس کی لیکن اپنے وعدوں سے مکر جانے کو جی چاہتا ہے قرض ٹوٹے ہوئے خوابوں کا ادا ہو جائے ذات میں اپنی بکھر ...

    مزید پڑھیے

    اداسی کا سمندر دیکھ لینا

    اداسی کا سمندر دیکھ لینا مری آنکھوں میں آ کر دیکھ لینا ہمارے ہجر کی تمہید کیا تھی مری یادوں کا دفتر دیکھ لینا تصور کے لبوں سے چوم لوں گا تری یادوں کے پتھر دیکھ لینا نجومی نے یہ کی ہے پیش گوئی رلائے گا مقدر دیکھ لینا نہ رکھنا واسطہ تم مجھ سے لیکن مری ہجرت کا منظر دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد

    یہ حادثہ تو ہوا ہی نہیں ہے تیرے بعد غزل کسی کو کہا ہی نہیں ہے تیرے بعد ہے پر سکون سمندر کچھ اس طرح دل کا کہ جیسے چاند کھلا ہی نہیں ہے تیرے بعد مہکتی رات سے دل سے قلم سے کاغذ سے کسی سے ربط رکھا ہی نہیں ہے تیرے بعد خیال خواب فسانے کہانیاں تھیں مگر وہ خط تجھے بھی لکھا ہی نہیں ہے تیرے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2