گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں
گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں میں اک گہرا سمندر بن گیا ہوں تری یادوں کے انگاروں کو اکثر تصور کے لبوں سے چومتا ہوں کوئی پہچاننے والا نہیں ہے بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہوں مرا قد کتنا اونچا ہو گیا ہے فلک کی وسعتوں کو ناپتا ہوں وہ یوں مجھ کو بھلانا چاہتے ہیں کہ جیسے میں بھی کوئی ...