Kafeel Aazar Amrohvi

کفیل آزر امروہوی

فلم نغمہ نگار ، اپنی نظم ’ بات نکلے گی تو پھر دور تلک جائے گی‘ کے لئے مشہور، جسے جگجیت سنگھ نے آواز دی تھی

Poet and lyricist. Famous for his nazm "baat niklegi to phir door talak jayegi" sung by Jagjit Singh.

کفیل آزر امروہوی کی غزل

    گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں

    گھٹاؤں کی اداسی پی رہا ہوں میں اک گہرا سمندر بن گیا ہوں تری یادوں کے انگاروں کو اکثر تصور کے لبوں سے چومتا ہوں کوئی پہچاننے والا نہیں ہے بھرے بازار میں تنہا کھڑا ہوں مرا قد کتنا اونچا ہو گیا ہے فلک کی وسعتوں کو ناپتا ہوں وہ یوں مجھ کو بھلانا چاہتے ہیں کہ جیسے میں بھی کوئی ...

    مزید پڑھیے

    تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا

    تنہائی کی گلی میں ہواؤں کا شور تھا آنکھوں میں سو رہا تھا اندھیرا تھکا ہوا سینے میں جیسے تیر سا پیوست ہو گیا تھا کتنا دل خراش اداسی کا قہقہہ یوں بھی ہوا کہ شہر کی سڑکوں پہ بارہا ہر شخص سے میں اپنا پتہ پوچھتا پھرا برسوں سے چل رہا ہے کوئی میرے ساتھ ساتھ ہے کون شخص اس سے میں اک بار ...

    مزید پڑھیے

    مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو

    مجھ سے اب تک یہ گلہ ہے مرے غم خواروں کو کیوں چھوا میں نے تری یاد کے انگاروں کو ذہن و دل حشر کے سورج کی طرح جلتے ہیں جب سے چھوڑا ہے ترے شہر کی دیواروں کو آج بھی آپ کی یادوں کے مقدس جھونکے چھیڑ جاتے ہیں محبت کے گنہ گاروں کو آرزو سوچ تڑپ درد کسک غم آنسو ہم سے کیا کیا نہ ملا ہجر کے ...

    مزید پڑھیے

    سکوں تھوڑا سا پایا دھوپ کے ٹھنڈے مکانوں میں

    سکوں تھوڑا سا پایا دھوپ کے ٹھنڈے مکانوں میں بہت جلنے لگا تھا جسم برفیلی چٹانوں میں کب آؤ گے یہ گھر نے مجھ سے چلتے وقت پوچھا تھا یہی آواز اب تک گونجتی ہے میرے کانوں میں جنازہ میری تنہائی کا لے کر لوگ جب نکلے میں خود شامل تھا اپنی زندگی کے نوحہ خوانوں میں مری محرومیاں جب پتھروں ...

    مزید پڑھیے

    گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو

    گمشدہ تنہائیوں کی رازداں اچھی تو ہو میں یہاں اچھا نہیں ہوں تم وہاں اچھی تو ہو وقت رخصت بھیگے بھیگے ان دریچوں کی قسم نور پیکر چاند صورت گلستاں اچھی تو ہو تھرتھراتے کانپتے ہونٹوں کو آیا کچھ سکوں اے زباں رکھتے ہوئے بھی بے زباں اچھی تو ہو دھوپ نے جب آرزو کے جسم کو نہلا دیا بن گئی ...

    مزید پڑھیے

    ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے

    ہم نے جب کوئی بھی دروازہ کھلا پایا ہے کتنی گزری ہوئی باتوں کا خیال آیا ہے قافلہ درد کا ٹھہرے گا کہاں ہم سفرو کوئی منزل ہے نہ بستی نہ کہیں سایا ہے ایک سہما ہوا سنسان گلی کا نکڑ شہر کی بھیڑ میں اکثر مجھے یاد آیا ہے یوں لیے پھرتا ہوں ٹوٹے ہوئے خوابوں کی صلیب اب یہی جیسے مری زیست کا ...

    مزید پڑھیے

    جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا

    جاتے جاتے یہ نشانی دے گیا وہ مری آنکھوں میں پانی دے گیا جاگتے لمحوں کی چادر اوڑھ کر کوئی خوابوں کو جوانی دے گیا میرے ہاتھوں سے کھلونے چھین کر مجھ کو زخموں کی کہانی دے گیا حل نہ تھا مشکل کا کوئی اس کے پاس صرف وعدے آسمانی دے گیا خود سے شرمندہ مجھے ہونا پڑا آئنہ جب میرا ثانی دے ...

    مزید پڑھیے

    یہ حادثہ بھی ترے شہر میں ہوا ہوگا

    یہ حادثہ بھی ترے شہر میں ہوا ہوگا تمام شہر مجھے ڈھونڈھتا پھرا ہوگا میں اس خیال سے اکثر اداس رہتا ہوں کوئی جدائی کی صدیاں گزارتا ہوگا چلو کہ شہر کی سڑکیں کہیں نہ سو جائیں اب اس اجاڑ حویلی میں کیا رکھا ہوگا تمہاری بزم سے نکلے تو ہم نے یہ سوچا زمیں سے چاند تلک کتنا فاصلہ ...

    مزید پڑھیے

    رات کے دشت میں پھیلا ہوا سناٹا ہوں

    رات کے دشت میں پھیلا ہوا سناٹا ہوں اپنے سائے سے بچھڑنے کی سزا پاتا ہوں میں کبھی اپنے لیے غیر نہیں تھا اتنا آئینہ دیکھ کے کل رات بہت رویا ہوں تم سے ملنے کی خوشی ہے نہ بچھڑنے کا ملال خود فریبی کے اب اس موڑ پہ آ پہونچا ہوں جب سے اک خواب کی تعبیر ملی ہے مجھ کو میں ہر اک خواب کی تعبیر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں

    کوئی منزل نہیں ملتی تو ٹھہر جاتے ہیں اشک آنکھوں میں مسافر کی طرح آتے ہیں کیوں ترے ہجر کے منظر پہ ستم ڈھاتے ہیں زخم بھی دیتے ہیں اور خواب بھی دکھلاتے ہیں ہم بھی ان بچوں کی مانند کوئی پل جی لیں ایک سکہ جو ہتھیلی پہ سجا لاتے ہیں یہ تو ہر روز کا معمول ہے حیران ہو کیوں پیاس ہی پیتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2