Kabir Ajmal

کبیر اجمل

کبیر اجمل کی غزل

    نئی زمین نئے آسماں سنورتے رہیں

    نئی زمین نئے آسماں سنورتے رہیں یہی ہے شرط تو پھر حرف حرف مرتے رہیں یہی سزا ہے کہ لمحوں کی بازگشت کے بعد صدی صدی ترے کوچے میں بین کرتے رہیں وہ انقلاب لکیروں سے جو ابھر نہ سکا کہاں تلک اسی خاکے میں رنگ بھرتے رہیں کچھ اور چاہئے دیوانگی کو حد جنوں کچھ اور عرصۂ محشر کہ ہم گزرتے ...

    مزید پڑھیے

    اک تصور بیکراں تھا اور میں

    اک تصور بیکراں تھا اور میں درد کا سیل رواں تھا اور میں غم کا اک آتش فشاں تھا اور میں دور تک گہرا دھواں تھا اور میں کس سے میں ان کا ٹھکانا پوچھتا سامنے خالی مکاں تھا اور میں میرے چہرے سے نمایاں کون تھا آئنوں کا اک جہاں تھا اور میں اک شکستہ ناؤ تھی امید کی ایک بحر بیکراں تھا اور ...

    مزید پڑھیے

    بجائے گل مجھے تحفہ دیا ببولوں کا

    بجائے گل مجھے تحفہ دیا ببولوں کا میں منحرف تو نہیں تھا ترے اصولوں کا ازالہ کیسے کرے گا وہ اپنی بھولوں کا کہ جس کے خون میں نشہ نہیں اصولوں کا نفس کا قرض چکانا بھی کوئی کھیل نہیں وہ جان جائے گا انجام اپنی بھولوں کا نئی تلاش کے یہ میر کارواں ہوں گے بناتے جاؤ یوں ہی سلسلہ بگولوں ...

    مزید پڑھیے

    ہجوم سیارگاں میں روشن دیا اسی کا

    ہجوم سیارگاں میں روشن دیا اسی کا فصیل شب پر بھی گل کھلائے ہوا اسی کا اسی کی شہ پر طرف طرف رقص موج گریہ تمام گرداب خوں پہ پہرا بھی تھا اسی کا اسی کا لمس گداز روشن کرے شب غم ہوائے مست وصال کا سلسلہ اسی کا اسی کے غم میں دھواں دھواں چشم رنگ و نغمہ سو عکس زار خیال بھی معجزہ اسی ...

    مزید پڑھیے

    میں جسم و جاں کے کھیل میں بیباک ہو گیا

    میں جسم و جاں کے کھیل میں بیباک ہو گیا کس نے یہ چھو دیا ہے کہ میں چاک ہو گیا کس نے کہا وجود مرا خاک ہو گیا میرا لہو تو آپ کی پوشاک ہو گیا بے سر کے پھر رہے ہیں زمانہ شناس لوگ زندہ نفس کو عہد کا ادراک ہو گیا کب تک لہو کی آگ میں جلتے رہیں گے لوگ کب تک جئے گا وہ جو غضب ناک ہو گیا زندہ ...

    مزید پڑھیے

    سیاہی ڈھل کے پلکوں پر بھی آئے

    سیاہی ڈھل کے پلکوں پر بھی آئے کوئی لمحہ دھنک بن کر بھی آئے گلابی سیڑھیوں سے چاند اترے خرام ناز کا منظر بھی آئے لہو رشتوں کا اب جمنے لگا ہے کوئی سیلاب میرے گھر بھی آئے میں اپنی فکر کا کوہ ندا ہوں کوئی حاتم مرے اندر بھی آئے میں اپنے آپ کا قاتل ہوں اجملؔ مرا آسیب اب باہر بھی آئے

    مزید پڑھیے

    ابھی تو فیصلہ باقی ہے شام ہونے دے

    ابھی تو فیصلہ باقی ہے شام ہونے دے سحر کی اوٹ میں مہتاب جاں کو رونے دے تری نظر کے اشارے نہ روشنی بن جائیں تو پھر یہ رات کہاں جگنوؤں کو سونے دے بہت ہوا تو ہواؤں کے ساتھ رو لوں گا ابھی تو ضد ہے مجھے کشتیاں ڈبونے دے ہمارے بعد بھی کام آئے گی جنوں کی آگ یہ آگ زندہ ہے اس کو نہ سرد ہونے ...

    مزید پڑھیے

    افق کے آخری منظر میں جگمگاؤں میں

    افق کے آخری منظر میں جگمگاؤں میں حصار ذات سے نکلوں تو خود کو پاؤں میں ضمیر و ذہن میں اک سرد جنگ جاری ہے کسے شکست دوں اور کس پہ فتح پاؤں میں تصورات کے آنگن میں چاند اترا ہے روش روش تری چاہت سے جگمگاؤں میں زمیں کی فکر میں صدیاں گزر گئیں اجملؔ کہاں سے کوئی خبر آسماں کی لاؤں میں

    مزید پڑھیے

    اپنی انا سے بر سر پیکار میں ہی تھا

    اپنی انا سے بر سر پیکار میں ہی تھا سچ بولنے کی دھن تھی سر دار میں ہی تھا سازش رچی گئی تھی کچھ ایسی مرے خلاف ہر انجمن میں باعث آزار میں ہی تھا سو کرتبوں سے زخم لگائے گئے مجھے شاید کہ اپنے عہد کا شہکار میں ہی تھا لمحوں کی بازگشت میں صدیوں کی گونج تھی اور آگہی کا مجرم اظہار میں ہی ...

    مزید پڑھیے

    وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے

    وہ خواب طلب گار تماشا بھی نہیں ہے کہتے ہیں کسی نے اسے دیکھا بھی نہیں ہے پہلی سی وہ خوشبوئے تمنا بھی نہیں ہے اس بار کوئی خوف ہوا کا بھی نہیں ہے اس چاند کی انگڑائی سے روشن ہیں در و بام جو پردۂ شب رنگ پہ ابھرا بھی نہیں ہے کہتے ہیں کہ اٹھنے کو ہے اب رسم محبت اور اس کے سوا کوئی تماشا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2