Joshish Azimabadi

جوشش عظیم آبادی

  • 1737 - 1801

میر تقی میر کے ہمعصر،دبستان عظیم آباد کے نمائندہ شاعر، دلی اسکول کے طرز میں شاعری کے لیے مشہور

Prominent contemporary of Mir taqi Mir writing poetry at far-off Azimabad in Delhi style

جوشش عظیم آبادی کی غزل

    لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ

    لکھا خط اسے لے قلم اور کاغذ جلے عشق سوزاں سے ہم اور کاغذ نہ رکھ دیدۂ تر پہ مکتوب اس کا مخالف ہیں آپس میں نم اور کاغذ خدا سے بھی ڈر لکھ نہ احوال دل کا دوانے یہ سوز رقم اور کاغذ لکھا صفحۂ دل پہ مکتوب تجھ کو نہ تھا تیرے لائق صنم اور کاغذ مرے دل کو اے چشم نامے کا اس کے خوش آتا ہے حسن ...

    مزید پڑھیے

    چھوڑ دے مار لات دنیا کو

    چھوڑ دے مار لات دنیا کو کچھ نہیں ہے ثبات دنیا کو ہاتھ آئی ہے جس کو دولت فقر ان نے ماری ہے لات دنیا کو زال دنیا ہی سا ہے وہ بد ذات جو کہے نیک ذات دنیا کو دام الفت میں سب کو کھینچے ہے آ گئی ہے یہ گھات دنیا کو پشت پا مارے مسند جم پر جو لگائے نہ ہاتھ دنیا کو تو جو مرتا ہے اس پر اے ...

    مزید پڑھیے

    کشتی ہے تباہ دل شدوں کی

    کشتی ہے تباہ دل شدوں کی لینا خبر اپنے بے خودوں کی اے سرو سہی کے ایک گلشن چلیو مت چال خوش قدوں کی کیوں کر وو کرے سلوک ہم سے خاطر ہے عزیز حاسدوں کی تعمیر کنشت دل ہوا جب زاہد نہ بنا تھی مسجدوں کی کہنا مت مان واعظوں کا بیہودہ ہے بات بیہدوں کی داڑھی نہ رہے گی شیخ صاحب صحبت میں نہ ...

    مزید پڑھیے

    گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم

    گو کہ محتاج ہیں گدا ہیں ہم بے نیازی کے بادشا ہیں ہم چشم تحقیر سے ہمیں مت دیکھ خاک تو ہیں پہ توتیا ہیں ہم آہ اس عمر بے بقا کی طرح رہرو کشور فنا ہیں ہم ایسا بے برگ و بے نواہی کون جیسے بے برگ و بے نوا ہیں ہم گو ہمیں تو کبھی نہ یاد کرے پر تری یاد میں سدا ہیں ہم مبتلا اس بلا میں کوئی ...

    مزید پڑھیے

    ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے

    ہر چند کہ دیکھے ہے وہ پیار کی آنکھوں سے پر نکلے ہے بے رنگی اس پار کی آنکھوں سے شدت سے لگا ہنسنے احوال پہ گر میرے آنسو بھی کبھی ٹپکے مکار کی آنکھوں سے بے طاقتیٔ دل کا کیا شرح و بیاں کیجئے بیماری نمایاں ہے بیمار کی آنکھوں سے ہے تیغ نگہ کھینچے شمشیر بکف مژگاں اب جیتے نہیں بچتے خوں ...

    مزید پڑھیے

    اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے

    اپنی وہ بے ثبات ہستی ہے کہ سدا نیستی ہی ہنستی ہے نام سنتے ہو جس کا ویرانہ وہی سودائیوں کی بستی ہے شمع سے ہاتھ کھینچ اے گل گیر اتنی بھی کیا دراز دستی ہے چشم وحدت سے گر کوئی دیکھے بت پرستی بھی حق پرستی ہے اپنے ابر مژہ سے اے ؔجوشش جائے آب آگ ہی برستی ہے

    مزید پڑھیے

    نالۂ دل کی تو کوتاہی نہیں

    نالۂ دل کی تو کوتاہی نہیں پر اثر کچھ اس کو ہوتا ہی نہیں کتنا وہ قاتل ہے بے خوف و خطر تیغ خوں آلودہ دھوتا ہی نہیں اس گلی میں جس طرح روتا ہوں میں اس طرح تو کوئی روتا ہی نہیں خار زار عشق کو کیا ہو گیا پاؤں میں کانٹے چبھوتا ہی نہیں ترک کی لذت سے واقف کون ہیں گر نہ ہوتا جان کھوتا ہی ...

    مزید پڑھیے

    ان دنوں وہ ادھر نہیں آتا

    ان دنوں وہ ادھر نہیں آتا اپنا جینا نظر نہیں آتا اس کی وعدہ خلافیاں دیکھو آنے کہتا ہے بے پر نہیں آتا گھر بہ گھر تو پڑا پھرے ہے تو آہ کیوں میرے گھر نہیں آتا قاصد اس بے وفا سے یوں کہنا لکھ تو کچھ بھیج گر نہیں آتا گو کہ رہتا ہے یہ جرس نالاں میرے نالوں سے پر نہیں آتا یار راتوں کو ...

    مزید پڑھیے

    خوش نما گرچہ مد کا ہالہ ہے

    خوش نما گرچہ مد کا ہالہ ہے تیرے کانوں کا بالا بالا ہے در مے خانہ کا گدا ہوں میں بے پیالہ مرا پیالہ ہے دل صد پارہ یہ بغل میں نہ ہو درد دکھ کا مرے رسالہ ہے اس نگہ اس مژہ کی کچھ مت پوچھ ایک برچھی ہے ایک بھالا ہے ہے دم و ہوش اپنا بے ہوشی ہوش جب سے یہاں سنبھالا ہے کیسے وعدہ خلاف سے ...

    مزید پڑھیے

    اٹھ گئے یاں سے اپنے ہم دم تو

    اٹھ گئے یاں سے اپنے ہم دم تو ہاتھ ملتے ہی رہ گئے ہم تو یار آیا ہے دیکھ لوں اس کو اے اجل دم لے تو کوئی دم تو مونس تازہ ہیں یہ درد و الم مدتوں کا رفیق ہے غم تو اپنا عاشق نہ جان تو مجھ کو اس کو جانے ہے ایک عالم تو بے حلاوت نہیں خط لب یار فی الحقیقت شکر ہے یہ سم تو دل بھی بہہ جائے گا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 4 سے 5