Jazib Quraishi

جاذب قریشی

جاذب قریشی کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    جاں سوز غموں کا کہیں اظہار نہیں ہے

    جاں سوز غموں کا کہیں اظہار نہیں ہے زنداں میں بھی زنجیر کی جھنکار نہیں ہے ہر شخص کے چہرے پہ ہے کچھ ایسی علامت جیسے وہ کوئی پھول ہے تلوار نہیں ہے سب گہرے سمندر میں کھڑے سوچ رہے ہیں ہم میں کوئی سورج کا پرستار نہیں ہے زخموں کا لہو ہو کہ چراغوں کا اجالا کوئی بھی مرے شہر میں بیدار ...

    مزید پڑھیے

    جاں خود شناس ہو تو دعا میں اثر بھی ہے

    جاں خود شناس ہو تو دعا میں اثر بھی ہے میں جل رہا ہوں تجھ کو مری کچھ خبر بھی ہے شہر گلاب میں بھی کوئی ڈھونڈھتا رہا وہ دھوپ جس میں تیرے بدن کا شجر بھی ہے وہ عکس ہوں کہ مجھ میں ترے خال و خد نہیں تو میرا آئنہ بھی ہے آئینہ گر بھی ہے سوچوں تو زرنگار سے چہرے بھی ساتھ ہیں دیکھوں تو یہ سفر ...

    مزید پڑھیے

    جلا ہوں دھوپ میں اک شہر رنگ و بو کے لئے

    جلا ہوں دھوپ میں اک شہر رنگ و بو کے لئے ملی ہے تشنہ لبی سیر آب جو کے لئے ترے بدن کی مہک اجنبی سہی لیکن مرے قریب سے گزری ہے گفتگو کے لئے جنوں کا پاس وفا کا خیال حسن کا غم کئی چراغ جلے ایک آرزو کے لئے نہ آنسوؤں کے ستارے نہ قہقہوں کے گلاب کوئی تو جشن کرو اپنے ماہ رو کے لئے نئے سوال ...

    مزید پڑھیے

    چہروں کو تو پڑھتے ہیں محبت نہیں کرتے

    چہروں کو تو پڑھتے ہیں محبت نہیں کرتے کیا لوگ ہیں زخموں کی حمایت نہیں کرتے زنجیر کی جھنکار سے آباد ہیں زنداں ہم لذت گفتار کی حسرت نہیں کرتے خوش رنگ اجالوں کی برستی ہوئی بوندیں گرتی ہوئی دیوار سے نفرت نہیں کرتے پتھر کی فصیلوں میں انہیں نسب کیا جائے جو اپنی روایت سے بغاوت نہیں ...

    مزید پڑھیے

    تھکن کی گرد سے خوش رنگ آہٹوں میں آ

    تھکن کی گرد سے خوش رنگ آہٹوں میں آ عداوتوں کو بھلا دے محبتوں میں آ نہ جانے کب سے ترا انتظار ہے مجھ کو کہ نیند توڑ کے بے خواب راستوں میں آ مرے خیال کے سائے ترے بدن کے عکس پکارتے ہیں ملاقات کی حدوں میں آ لپٹ گئی ہے مرے ذہن سے تری خوشبو میں جل رہا ہوں کہ بارش کے موسموں میں آ سفر کی ...

    مزید پڑھیے

تمام