جواد سید کی غزل

    ڈرا ڈرا کے وہ مجھ کو باغی بنا رہا ہے

    ڈرا ڈرا کے وہ مجھ کو باغی بنا رہا ہے حکومتوں کے لیے تباہی بنا رہا ہے جواں دلوں پر غموں کے تالے لگے ہوئے ہیں اور اک وہ بوڑھا خوشی کی چابی بنا رہا ہے سبھی کے ہاتھوں میں فون ہے پر قلم نہیں ہے امید لے کر کوئی سیاہی بنا رہا ہے تری محبت سے پہلے ڈرپوک شہری تھا میں ترا نشہ تو مجھے سپاہی ...

    مزید پڑھیے

    کس کا یہ گھر بنا ہے کس کی گلی بنی ہے

    کس کا یہ گھر بنا ہے کس کی گلی بنی ہے ہم تو ابھی گئے تھے پھر یہ کبھی بنی ہے آنسو کا تیرے قطرہ ہے میز پر ابھی تک تو دیکھ آ کے اس میں اک جل پری بنی ہے دو تین ماہ پہلے بچی تھی چھوڑی میں نے جانے وہ اتنی جلدی کیسے بڑی بنی ہے اپنی بنائی دنیا کا اپنا اک مزہ ہے یہ جو بنی ہوئی ہے یہ تو بنی بنی ...

    مزید پڑھیے

    جیسی خواہش تھی مری کاش کہ ویسا ہوتا

    جیسی خواہش تھی مری کاش کہ ویسا ہوتا سکھ پرایا سہی اک بار تو میرا ہوتا آگ تیری بھی مری آگ میں شامل ہوتی تب کہیں جا کے کلیجہ مرا ٹھنڈا ہوتا ایک حسرت ترے جانے کے بہت بعد ہوئی تیرے خاطر ہی مرے پاس میں پیسہ ہوتا پہلا رستہ بھی کوئی خاص مزے دار نہیں کاش مرنے کا کوئی دوسرا رستہ ہوتا

    مزید پڑھیے