Javed Quraishi

جاوید قریشی

  • - 2014

جاوید قریشی کی غزل

    وہ مری بزم میں آیا ہو کبھی یاد نہیں

    وہ مری بزم میں آیا ہو کبھی یاد نہیں حال دل کھل کے سنایا ہو کبھی یاد نہیں اک سر راہ ملاقات تو تسلیم مگر خلوتوں میں بھی بلایا ہو کبھی یاد نہیں قہقہے چھین کے آنسو مجھے دینے والے میں نے تجھ کو بھی رلایا ہو کبھی یاد نہیں جو زمانے میں مرے نام سے جانا جائے حق کوئی اس نے جتایا ہو کبھی ...

    مزید پڑھیے

    آشیانے کی بات کرتے ہو

    آشیانے کی بات کرتے ہو دل جلانے کی بات کرتے ہو you talk of nests and refuges again you talk of very things that cause me pain ساری دنیا کے رنج و غم دے کر مسکرانے کی بات کرتے ہو after giving me a world of pain smiling then you ask me to remain ہم کو اپنی خبر نہیں یارو تم زمانے کی بات کرتے ہو Friends when I have no clue about myself you talk to me about the world in vain ذکر ...

    مزید پڑھیے

    صحرا لگے کبھی کبھی دریا دکھائی دے

    صحرا لگے کبھی کبھی دریا دکھائی دے حیران ہوں میں کیا ہے جہاں کیا دکھائی دے آواز کوئی ہو میں اسی کی صدا سنوں ہر سمت مجھ کو ایک ہی چہرہ دکھائی دے نادانیوں کا دل کی بھی کوئی علاج ہو بن کے وہ غیر بھی مجھے اپنا دکھائی دے مجھ کو تو انجمن ہی لگا اپنی ذات میں اک شخص دوسروں کو جو تنہا ...

    مزید پڑھیے

    دل ناداں کو ہو قرار نہیں

    دل ناداں کو ہو قرار نہیں پر مجھے تیرا انتظار نہیں بھر گئے زخم سل گیا دامن آنکھ بھی دیکھو اشک بار نہیں کس جگہ جائیں کس سے بات کریں اپنا کوئی بھی غم گسار نہیں اتنے پائے ہیں دوستی میں فریب اب کسی کا بھی اعتبار نہیں

    مزید پڑھیے

    شمار لمحوں کا صدیوں میں کر رہا ہوں میں

    شمار لمحوں کا صدیوں میں کر رہا ہوں میں عجیب وقت سے یارو گزر رہا ہوں میں یہ سارا فیض اسی آتش دروں کا ہے ہوا ہے کتنا اندھیرا نکھر رہا ہوں میں نظر نظر میں حکایت مرے جنوں کی ہے صحیفہ بن کے دلوں میں اتر رہا ہوں میں مجھے مٹا نہ سکو گے ہزار کوشش سے جہاں ڈبویا وہاں سے ابھر رہا ہوں میں

    مزید پڑھیے

    اس طرف سے ذرا گزر جاؤ

    اس طرف سے ذرا گزر جاؤ خشک پتوں میں رنگ بھر جاؤ جی اٹھیں جاں بہ لب یہ دیواریں آؤ یہ معجزہ بھی کر جاؤ روح تک تازگی سی پھیلا دو بن کے خوشبو ذرا بکھر جاؤ یہ ہنر بھی تو تم کو آتا ہے پھر سے وعدہ کرو مکر جاؤ

    مزید پڑھیے