Javed Nasir

جاوید ناصر

  • 1949 - 2006

جاوید ناصر کے تمام مواد

21 غزل (Ghazal)

    مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے

    مگر جو دل میں تھا وہ کہہ گئی ہے سدا خاموش ہو کے رہ گئی ہے ابھی تک ذکر ہے لہروں میں اس کا وہ موج خیر تھی جو بہہ گئی ہے نچھاور کر رہے تھے ہم غموں کو مگر دیوار گریہ ڈھہ گئی ہے خدا آباد رکھے زندگی کو ہماری خامشی کو سہہ گئی ہے

    مزید پڑھیے

    بات یہ ہے سدا نہیں ہوتا

    بات یہ ہے سدا نہیں ہوتا کوئی اچھا برا نہیں ہوتا قرض ہے اور پھر ہمارا دل عادتوں سے جدا نہیں ہوتا دوسرا آدمی تو دوزخ ہے میں کبھی دوسرا نہیں ہوتا اتنا مانوس ہوں میں دنیا سے کوئی پل ہو گلہ نہیں ہوتا نیند کیوں زندگی سے ڈرتی ہے اور سورج صلہ نہیں ہوتا عیش و آرام تیرے بارے میں میں نے ...

    مزید پڑھیے

    دور ہوتے ہوئے قدموں کی خبر جاتی ہے

    دور ہوتے ہوئے قدموں کی خبر جاتی ہے خشک پتے کو لیے گرد سفر جاتی ہے پاس آتے ہوئے لمحات پگھل جاتے ہیں اب تو ہر چیز دبے پاؤں گزر جاتی ہے رات آ جائے تو پھر تجھ کو پکاروں یارب میری آواز اجالے میں بکھر جاتی ہے دوستو تم سے گزارش ہے یہاں مت آؤ اس بڑے شہر میں تنہائی بھی مر جاتی ہے

    مزید پڑھیے

    کبھی عذاب کبھی ایک تازیانہ ہے

    کبھی عذاب کبھی ایک تازیانہ ہے ہمارا دور گزشتہ کا شاخسانہ ہے بس ایک وعدۂ فردا پہ لوگ زندہ ہیں بس ایک لمحۂ موجود آب و دانہ ہے تناظرات یہاں تو بدلتے رہتے ہیں تمہارا نیک رویہ بھی مجرمانہ ہے اب ایسی دھند میں مجھ کو دکھائی کیا دے گا ہے بس میں تیر نہ قابو میں وہ نشانہ ہے وہ سنگ راہ ...

    مزید پڑھیے

    گھر کی تسلیوں میں جواز ہنر تو ہے

    گھر کی تسلیوں میں جواز ہنر تو ہے ان جنگلوں میں رات کا جھوٹا سفر تو ہے جس کے لیے ہواؤں سے منہ پونچھتی ہے نیند اس جرأت حساب میں خوابوں کا ڈر تو ہے کھلتی ہیں آسماں میں سمندر کی کھڑکیاں بے دین راستوں پہ کہیں اپنا گھر تو ہے روشن کوئی چراغ مزار ہوا پہ ہو پلکوں پہ آج رات غبار سحر تو ...

    مزید پڑھیے

تمام

6 نظم (Nazm)

    باطن

    دور حاضر کے تم ایک شرمندہ انسان ہو میں جو چیخا تو میری انا ٹوٹ کر جنگلوں کی تپش بن گئی داستاں کی خلش بن گئی قہقہے بے صدا قہقہے مکڑیوں کی فضا میں اڑاتے رہے تیز مضبوط قوموں کے ناراض قصے سناتے رہے میں پریشان نیندوں کے بادل ہٹا کر بجھی رات کے سادہ پردے اٹھا کر جو خیمے سے نکلا تو ...

    مزید پڑھیے

    بعد از خدا

    چراغ ہے، کتاب ہے سوال ہے، جواب ہے کہ آسماں منڈیر ہے کہ یہ زمیں بھی ڈھیر ہے کسی کا کوئی نام ہے نہ زندگی مدام ہے مگر وہ ایک شخص ہے جو دھوپ کی کگار ہے جہاں کا اس پہ بار ہے چلے چلو کہ وقت ہے، عذاب کتنا سخت ہے مگر وہ کب زوال ہے، وہ موسموں کی شال ہے پہن رہی ہے شام بھی بدل رہی ہے رات بھی کہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ خلف کا وعدہ ہے

    اختر الزماں ناصر وقت جیسے رویا ہو دھوپ نرم لہجے میں جیسے آج گویا ہو دور کوئی مسجد میں بیچ عصر و مغرب کے جیسے کھویا کھویا ہو اختر الزماں ناصر میں تمہاری آنکھوں سے دیکھتا تھا دنیا کو میں تمہارے ہاتھوں سے زندگی کو چھوتا تھا میں تمہارے قدموں سے ناپتا تھا رستوں کو میں تمہاری سانسوں ...

    مزید پڑھیے

    نجات

    خاموش مہیب رات کا دل دھڑکتا ہے اندھیرے کے زبردست ہاتھ نے میری آنکھوں سے نیند گھسیٹ لی ہے اس وحشی سناٹے میں ہوا کی دوزخی لہروں پر تڑپتی ہوئی ایک فریاد مجھ تک پہنچتی نہ تھی حلق پر غیر مرئی ناخنوں کے دباؤ سے میں کسی اوک زبان میں گالیاں دیتا ہوں چند لمحوں کے بعد کسی غیر فطری غفلت کے ...

    مزید پڑھیے

    سنا یہی ہے

    خموش رہنا، کبھی سر ہلا کے سن لینا ہوا میں چاند بنانا، بنا کے چن لینا عجیب دور تھا چاروں طرف اداسی تھی زمین اپنی ہی تنہائیوں کی پیاسی تھی کبھی شراب کبھی شاعری کبھی محفل پھر اس کے بعد دھڑکتا ہوا اکیلا دل خود اپنے گھر میں ہی گھر سے الگ تھلگ رہنا کتاب جاں کے لیے رات بھر غزل کہنا یہ ...

    مزید پڑھیے

تمام