جاوید لکھنوی کی غزل

    کبھی اندھیرے سے گھبرائے روشنی سے کبھی (ردیف .. غ)

    کبھی اندھیرے سے گھبرائے روشنی سے کبھی کبھی بجھائے چراغ اور کبھی جلائے چراغ وہ بجھتے دل کو نہ دیکھیں کسی کے خوب ہے یہ وہ منہ کو پھیر لیں جس وقت جھلملائے چراغ لحد پہ چل کے ہوا گر بجھاتی ہے تو بجھائے تمہارا ہو چکا احساں کہ خود جلائے چراغ لحد پہ بوئے وفا آ رہی تھی وقت سحر کہیں کہیں ...

    مزید پڑھیے

    ہے رنگ حنا جن میں وہی ہاتھ دکھا دے

    ہے رنگ حنا جن میں وہی ہاتھ دکھا دے حسرت ہے کہ پھر دل میں کوئی آگ لگا دے یکتائی کا دعویٰ تو بہت کچھ ہے مری جان کیا ہو جو کوئی آئنہ محفل میں دکھا دے سبزے کی طرح سو گئے وہ صحن چمن میں بے سمجھے چٹک کر کوئی غنچہ نہ جگا دے خط پڑھ کے نہ تھم دم مرا رک جاتا ہے قاصد جو جو مری تقدیر کا لکھا ہے ...

    مزید پڑھیے

    گردش میں آئنہ ہو نہ کیوں روزگار کا

    گردش میں آئنہ ہو نہ کیوں روزگار کا چلو میں خوں لیے ہوں دل بے قرار کا بھڑکی ہوئی تھی سرخ گلوں سے چمن میں آگ دامن نہ جل گیا ہو نسیم بہار کا آئے ہیں لے کے غیر کو وہ پوچھنے مزاج تم نے گلہ کیا تھا دل بے قرار کا محشر کی بھی امید پہ بے کار جان دی کیا اعتبار وعدۂ بے اعتبار کا اتنی تو ...

    مزید پڑھیے

    دل سوزان عاشق مخزن رنگ وفا ہوگا

    دل سوزان عاشق مخزن رنگ وفا ہوگا وہ حصہ قدر کے قابل ہے جتنا جل گیا ہوگا چلے تھے درد کو سن کر تھمے یہ کہہ کے رستہ میں نہ جانا اب مناسب ہے وہ کب کا مر گیا ہوگا یہ اک بوسے پہ اتنی بحث یہ زیبا نہیں تم کو نہیں ہے یاد مجھ کو خیر اچھا لے لیا ہوگا چھڑی تھیں حسن کی بحثیں ادھر چاند اور ادھر ...

    مزید پڑھیے

    زندگی کا مزا نہیں ملتا

    زندگی کا مزا نہیں ملتا بت ملے تو خدا نہیں ملتا منزل آخری ہے قبر مری اب کوئی راستہ نہیں ملتا خوگر ظلم ہو گیا ایسا مجھ کو لطف وفا نہیں ملتا نگہ یاس سے کسے دیکھوں دل درد آشنا نہیں ملتا بات اتنی نہ عمر بھر سمجھے کیا ملا اور کیا نہیں ملتا جس کو جاویدؔ اس نے کھویا ہے اسی دل کا پتا ...

    مزید پڑھیے

    پیاسی تھی یہ خود مرے لہو کی

    پیاسی تھی یہ خود مرے لہو کی تھی تیز چھری رگ گلو کی دل کھو کے نہ میں نے جستجو کی سمجھا تھا کہ بوند تھی لہو کی تم پاس جو آئے کھو گئے ہم جب تم نہ ملے تو جستجو کی سب زخم کے ٹانکے ساتھ ٹوٹے حاجت نہ رہی کوئی رفو کی خود کھو گئے ہم جہاں میں آخر اس حد پہ کسی کی جستجو کی دیکھا کہ زمیں سے آگ ...

    مزید پڑھیے

    ہاتھ سے دل رو کے کھونا یاد ہے

    ہاتھ سے دل رو کے کھونا یاد ہے اپنی کشتی کو ڈبونا یاد ہے منہ چھپا کر مجھ کو رونا یاد ہے وہ خجل ہر اک سے ہونا یاد ہے ہجر میں وہ جان کھونا یاد ہے صبح ہونا شام ہونا یاد ہے مرتے مرتے ہاتھ سینہ پر رہے درد کا تھم تھم کے ہونا یاد ہے کیوں جہاں میں آئے تھے سمجھے نہ کچھ ان کا ہنسنا اپنا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2