جاوید لکھنوی کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی

    بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی غضب کی آگ لگی ہے ذرا بجھائے کوئی پڑی ہے دل کو مرے خود بھی عادت فریاد یہ چھیڑتا ہے ہر اک کو کہ پھر ستائے کوئی سنائے جاتے ہیں ہم قصۂ غم فرقت خدا کرے کہ نہ محفل میں مسکرائے کوئی تڑپ وہ ہجر کی تھی اب یہ موت کی ہے تڑپ جو دیکھنا ہو تو اب آ کے دیکھ جائے ...

    مزید پڑھیے

    آگ جب زخم جگر بے انتہا دینے لگے

    آگ جب زخم جگر بے انتہا دینے لگے چارہ گر گھبرا کے اف اف کی صدا دینے لگے اب کہاں تھا میں جو دیتا اس محبت کا جواب جس کی تربت دیکھ لی مجھ کو صدا دینے لگے دامن صبر و تحمل ہاتھ سے خود چھٹ گیا ٹوٹ کر زخموں کے ٹانکے جب صدا دینے لگے ہجر کی راتوں کے سناٹے میں اف ری بے خودی ہم دل گم گشتہ کو ...

    مزید پڑھیے

    اب تک تو کمی کچھ نہ ہوئی داغ جگر میں

    اب تک تو کمی کچھ نہ ہوئی داغ جگر میں برسوں سے چراغ ایک ہی جلتا رہا گھر میں ظاہر میں ہنسے وہ مگر آنسو نکل آئے تھا کوئی اثر بھی مرے مرنے کی خبر میں رنگ اڑنے نہ دوں گا تری تصویر کے رخ سے باقی ابھی کچھ خون کے خطرے ہیں جگر میں توسیع خیالات کی حد مل نہیں سکتی چھوٹا سا بیاباں نظر آ جاتا ...

    مزید پڑھیے

    شب فراق میں یہ دل سے گفتگو کیا ہے

    شب فراق میں یہ دل سے گفتگو کیا ہے مری امید ہیں وہ ان کی آرزو کیا ہے رگیں تمام بدن کی ادھر کو کھینچتی ہیں کسی کا ہاتھ قریب‌ رگ گلو کیا ہے شکست‌ آبلۂ پا نے آبرو رکھ لی کھلا نہ حال کہ پانی ہے کیا لہو کیا ہے میں اپنی موت پہ راضی وہ لاش اٹھانے پر اب آگے دیکھنا ہے مرضیٔ عدو کیا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    کہا جو اس نے کہ کہئے تو کچھ گلا کیا ہے

    کہا جو اس نے کہ کہئے تو کچھ گلا کیا ہے مری زبان سے نکلا کہ فائدہ کیا ہے اداس دیکھ کے محفل کو میری کہتے ہیں یہاں بھی کوئی مصیبت کا مبتلا کیا ہے بس آج تک تو بہت خوب ہجر میں گزری اب آگے دیکھیے تقدیر میں لکھا کیا ہے تمام ہو گئے ہم داستان ہو گئی ختم اب اور قصۂ فرقت کی انتہا کیا ...

    مزید پڑھیے

تمام