بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی
بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی غضب کی آگ لگی ہے ذرا بجھائے کوئی پڑی ہے دل کو مرے خود بھی عادت فریاد یہ چھیڑتا ہے ہر اک کو کہ پھر ستائے کوئی سنائے جاتے ہیں ہم قصۂ غم فرقت خدا کرے کہ نہ محفل میں مسکرائے کوئی تڑپ وہ ہجر کی تھی اب یہ موت کی ہے تڑپ جو دیکھنا ہو تو اب آ کے دیکھ جائے ...