جاوید لکھنوی کی غزل

    بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی

    بڑھا ہے سوز جگر اب مدد کو آئے کوئی غضب کی آگ لگی ہے ذرا بجھائے کوئی پڑی ہے دل کو مرے خود بھی عادت فریاد یہ چھیڑتا ہے ہر اک کو کہ پھر ستائے کوئی سنائے جاتے ہیں ہم قصۂ غم فرقت خدا کرے کہ نہ محفل میں مسکرائے کوئی تڑپ وہ ہجر کی تھی اب یہ موت کی ہے تڑپ جو دیکھنا ہو تو اب آ کے دیکھ جائے ...

    مزید پڑھیے

    آگ جب زخم جگر بے انتہا دینے لگے

    آگ جب زخم جگر بے انتہا دینے لگے چارہ گر گھبرا کے اف اف کی صدا دینے لگے اب کہاں تھا میں جو دیتا اس محبت کا جواب جس کی تربت دیکھ لی مجھ کو صدا دینے لگے دامن صبر و تحمل ہاتھ سے خود چھٹ گیا ٹوٹ کر زخموں کے ٹانکے جب صدا دینے لگے ہجر کی راتوں کے سناٹے میں اف ری بے خودی ہم دل گم گشتہ کو ...

    مزید پڑھیے

    اب تک تو کمی کچھ نہ ہوئی داغ جگر میں

    اب تک تو کمی کچھ نہ ہوئی داغ جگر میں برسوں سے چراغ ایک ہی جلتا رہا گھر میں ظاہر میں ہنسے وہ مگر آنسو نکل آئے تھا کوئی اثر بھی مرے مرنے کی خبر میں رنگ اڑنے نہ دوں گا تری تصویر کے رخ سے باقی ابھی کچھ خون کے خطرے ہیں جگر میں توسیع خیالات کی حد مل نہیں سکتی چھوٹا سا بیاباں نظر آ جاتا ...

    مزید پڑھیے

    شب فراق میں یہ دل سے گفتگو کیا ہے

    شب فراق میں یہ دل سے گفتگو کیا ہے مری امید ہیں وہ ان کی آرزو کیا ہے رگیں تمام بدن کی ادھر کو کھینچتی ہیں کسی کا ہاتھ قریب‌ رگ گلو کیا ہے شکست‌ آبلۂ پا نے آبرو رکھ لی کھلا نہ حال کہ پانی ہے کیا لہو کیا ہے میں اپنی موت پہ راضی وہ لاش اٹھانے پر اب آگے دیکھنا ہے مرضیٔ عدو کیا ہے یہ ...

    مزید پڑھیے

    کہا جو اس نے کہ کہئے تو کچھ گلا کیا ہے

    کہا جو اس نے کہ کہئے تو کچھ گلا کیا ہے مری زبان سے نکلا کہ فائدہ کیا ہے اداس دیکھ کے محفل کو میری کہتے ہیں یہاں بھی کوئی مصیبت کا مبتلا کیا ہے بس آج تک تو بہت خوب ہجر میں گزری اب آگے دیکھیے تقدیر میں لکھا کیا ہے تمام ہو گئے ہم داستان ہو گئی ختم اب اور قصۂ فرقت کی انتہا کیا ...

    مزید پڑھیے

    مجھ کو جینے سے فائدہ بھی نہیں

    مجھ کو جینے سے فائدہ بھی نہیں اور پھر مرضئ خدا بھی نہیں نہیں معلوم کیا میں کہتا ہوں تم نہیں ہو تو کیا خدا بھی نہیں موت اب زندگی بھی ہے مجھ کو جب مرے درد کی دوا بھی نہیں سر بالیں وہ مسکراتے ہیں میری تقدیر میں شفا بھی نہیں جھلملاتا ہے صبح کا تارا اب تو جینے کا آسرا بھی نہیں در ...

    مزید پڑھیے

    جھوٹی تسلیوں پہ شب غم بسر ہوئی

    جھوٹی تسلیوں پہ شب غم بسر ہوئی اٹھی چمک جو زخم میں سمجھا سحر ہوئی ہر ہر نفس چھری ہے لئے قطع‌‌ شام ہجر یا آج دم نکل ہی گیا یا سحر ہوئی بدلیں جو کروٹیں تو زمانہ بدل گیا دنیا تھی بے ثبات ادھر کی ادھر ہوئی جاتی ہے روشنی مری آنکھوں کو چھوڑ کے تارے چھپے وہ سو کے اٹھے وہ سحر ...

    مزید پڑھیے

    ہے یاد جوش یہ جس وقت اشک باری تھی

    ہے یاد جوش یہ جس وقت اشک باری تھی تو ایک نہر اسی آستیں سے جاری تھی زمین باغ پہ گرتے ہیں ٹوٹ کر تارے ستارہ دار قبا اس نے کیوں اتاری تھی میں آنکھیں بند کئے تھا وہ دیکھتے ایدھر جسے وہ سمجھتے تھے غفلت وہ ہوشیاری تھی لہو کے اشک جو ٹپکے تو کھل گیا یہ راز نگہ تھی دل میں کہ اتری ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    نہ آرزوئے جفا بہ قدم نکال کے چل

    نہ آرزوئے جفا بہ قدم نکال کے چل پڑے ہیں راہ میں کچھ دل بھی دیکھ بھال کے چل چلا جو حشر میں میں سن کے آمد جاناں یہ اضطراب پکارا کہ دل سنبھال کے چل ارے یہ حشر میں ہیں سینکڑوں ترے مشتاق یہاں پہ ہم بھی ہیں راضی نقاب ڈال کے چل عدم کا قصد ہے بحر جہاں سے گر جاویدؔ حساب دار زمانہ کو دیکھ ...

    مزید پڑھیے

    تھی چال حشر میں بھی قیامت حضور کی

    تھی چال حشر میں بھی قیامت حضور کی سچ پوچھئے تو جھینپ گئی آنکھ حور کی سچ ہے کہ راز وصل چھپانا نہیں ہے سہل میں کیا کہوں جو کہتی ہے چتون حضور کی جانے سے دل کے کیوں نہ ہو ویران بزم عیش شب بھر اسی سے رہتی تھی باتیں حضور کی غش آج آ گیا ہے خدا جانے کل ہو کیا موسیٰ اب اور سیر کرو کوہ طور ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2