کہا جو اس نے کہ کہئے تو کچھ گلا کیا ہے

کہا جو اس نے کہ کہئے تو کچھ گلا کیا ہے
مری زبان سے نکلا کہ فائدہ کیا ہے


اداس دیکھ کے محفل کو میری کہتے ہیں
یہاں بھی کوئی مصیبت کا مبتلا کیا ہے


بس آج تک تو بہت خوب ہجر میں گزری
اب آگے دیکھیے تقدیر میں لکھا کیا ہے


تمام ہو گئے ہم داستان ہو گئی ختم
اب اور قصۂ فرقت کی انتہا کیا ہے


گلے سے آ کے ملے وہ تو اور دل تڑپا
بڑھے دوا سے تو پھر درد کی دوا کیا ہے


ہر ایک اشک کے قطرے میں خوں کی شرکت نے
ہمارا زخم جگر بے محل ہنسا کیا ہے


جو دیکھتا ہوں کبھی آئنہ میں فرقت میں
تو خود بھی کہتا ہوں یہ آپ کو ہوا کیا ہے


ستم پہ داد کے خواہاں تمہیں سے ہیں جاویدؔ
وہ جانیں کیا کہ جفا کیا ہے اور وفا کیا ہے