Javaid Anwar

جاوید انور

جاوید انور کی نظم

    ایک شرمندہ نظم

    کن حرفوں کی تفہیم کروں کن رنگوں کی تجسیم کروں کس راہ چلوں اور چلتا جاؤں کھلا نہیں ابھی دروازہ تو کھلا نہیں کس پھول کی مدح لکھوں اے حرف سحر آثار اے یوم آزادی میں نے تو نہیں دیکھا ترے لمس سے کون سا سنگ گلاب ہوا آئنہ آب ہوا اس باغ میں کون سی مشت خاک کھلی خوشبو آزاد ہوئی بے بس اور سات ...

    مزید پڑھیے

    اپاہج دنوں کی ندامت

    کھڑکیاں کھول دو ضبط کی کھڑکیاں کھول دو میں کھلوں جون کی دوپہر میں دسمبر کی شب میں سبھی موسموں کے کٹہرے میں اپنی نفی کا میں اثبات بن کر کھلوں خواہشوں نیند کی جنگلی جھاڑیوں اپنے ہی خون کی دلدلوں میں کھلوں بھائیوں کی پھٹی آستینوں میں بہنوں کے سجدوں میں ماں باپ کے بے زباں درد میں ...

    مزید پڑھیے

    نوائے گمراہ شب

    اے خواب خندہ تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا مجھے خبر ہی نہیں تھی تو میری انگلیوں میں کھلا ہوا ہے مرے صدف میں ترے ہی موتی ہیں میری جیبوں میں تیرے سکے کھنک رہے ہیں نوائے گمراہ دشت شب کے نجوم تیری ہتھیلیوں پر چہک رہے ہیں مرے خلا میں تمام سمتیں ترے خلا سے اتر رہی ہیں مجھے خبر ہی نہ تھی کہ ...

    مزید پڑھیے

    ہسٹریا

    وہ خاموش تھی اپنے دوزخ میں جلتی ہوئی نیلگوں پانیوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی اک مچلتی ہوئی موج مہتاب کی سمت لپکی مگر ریت پر آ گری سیپ اگلتی ہوئی خامشی کے بھنور سے نکلتی ہوئی وہ ہنسی اور ہنسی بریزیر میں سے باہر پھسلتی ہوئی اب وہ لڑکی نہیں صرف انگڑائی تھی اک توانائی تھی نیم وا آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    ایک انتہائی غیر جذباتی رپورٹ

    سورج ڈھلتا ہے اور بم گرتا ہے اور بم گرتے ہیں سورج ڈھلنے سے سورج چڑھنے تک چڑھے ہوئے دن میں بھی ادھر ادھر بم گرتے رہتے ہیں لیکن کوئی چیخ سنائی نہیں دیتی پہلے دیتی تھی اب کوئی نہیں روتا گہرے گہرے گڑھے ہیں اور گڑھوں میں گلتا ہوا انسانی ماس ہے بچا کھچا اور چاروں جانب اینٹیں پتھر ...

    مزید پڑھیے

    برف کے شہر کی ویران گذر گاہوں پر

    برف کے شہر کی ویران گزر گاہوں پر میرے ہی نقش قدم میرے سپاہی ہیں مرا حوصلہ ہیں زندگیاں اپنے گناہوں کی پنہ گاہوں میں ہیں رقص کناں روشنیاں بند دروازوں کی درزوں سے ٹپکتی ہوئی قطرہ قطرہ شب کی دہلیز پہ گرتی ہیں کبھی کوئی مدہوش سی لے جامہ مے اوڑھ کے آتی ہے گزر جاتی ہے رات کچھ اور بپھر ...

    مزید پڑھیے

    تم کہو تو کہوں

    حرف کے تار میں جتنے آنسو پروئے گئے درد ان سے فزوں تھا سنو تو کہوں تم کہو تو کہوں ظرف کی داستاں کھیتیوں کو گلہ بادلوں سے نہیں سورجوں سے بھی تھا بازووں سے بھی تھا ہل پکڑنے سے پہلے ہی جو تھک گئے کشت زرخیز پر آب نمکین جم سا گیا رقص تھم سا گیا ایڑیاں گھومتے گھومتے رک گئیں اشک رخسار کی ...

    مزید پڑھیے

    ہم کہ ہیرو نہیں

    ہم خزاں کی غدود سے چل کر خود دسمبر کی کوکھ تک آئے ہم کو فٹ پاتھ پر حیات ملی ہم پتنگوں پہ لیٹ کر روئے سورجوں نے ہمارے ہونٹوں پر اپنے ہونٹوں کا شہد ٹپکایا اور ہماری شکم تسلی کو جون کی چھاتیوں میں دودھ آیا برف بستر بنی ہمارے لیے اور دوزخ کے سرخ ریشم سے ہم نے اپنے لیے لحاف بنے زرد ...

    مزید پڑھیے

    ایک غیر علامتی نظم

    ادھوری لڑکیو تم اپنے کمروں میں پرانے سال کے بوسیدہ کلینڈر سجا کر سوچتی ہو یہ بدن عمروں کی سازش میں نہ آئیں گے تمہیں کس نے بتایا ہے گھڑی کی سوئیوں کو روکنے سے دوڑتا اور ہانپتا سورج مثال نقش پا افلاک پر جم جائے گا تمہیں معلوم ہے عریانیوں کو ڈھانپ کر تم اور عریاں ہو رہی ہو روز ان ...

    مزید پڑھیے

    بولتا کیوں نہیں

    تو نے کیوں اپنے گالوں پہ سرسوں ملی تو نے کیوں اپنی آنکھوں میں چونا بھرا تیری گویائی کس دشت کے بھیڑیے لے گئے بولتا کیوں نہیں بولتا کیوں نہیں طفل معصوم تو کب سے بیمار ہے کیسا آزار ہے جس نے تیری شبوں سے تری نیند تیرے دنوں سے کھلونے چرائے تو سویا نہیں ہے مگر جاگتا کیوں نہیں دیکھتا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2