Javaid Anwar

جاوید انور

جاوید انور کی غزل

    میری تحریروں کا محور ایک بے سر فاختہ

    میری تحریروں کا محور ایک بے سر فاختہ میرا نعرہ خامشی میرا پیمبر فاختہ ایک آنگن قہقہوں اور سسکیوں سے بے خبر چھت پہ اک پرچم پھٹا سا اور در پر فاختہ تیرے رستوں کی رکاوٹ شاخ اک زیتون کی تیرے ایوانوں کے اندر جاگتا ڈر فاختہ شام پیاری شام اس پر بھی کوئی در کھول دے شاخ پر بیٹھی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    وہی حرف ہیں وہی ظرف ہیں وہی روز و شب ہیں سراب سے

    وہی حرف ہیں وہی ظرف ہیں وہی روز و شب ہیں سراب سے وہ ملاحتوں کا خمار سا وہ محبتوں کے سحاب سے نہ کسی کمان میں تیر ہے نہ گلاب ہیں کسی ہاتھ میں مرے شہر کے سبھی لوگ ہیں کسی اجنبی سی کتاب سے ترے بعد بھی وہی ڈھنگ ہیں وہی نخل سوختہ رنگ ہیں وہی انتظار طیور ہے وہی برگ سبز کے خواب سے جو کبھی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی

    عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی کہ چونکتا ہی نہیں اب تو دستکوں پہ کوئی اجاڑ شہر کے رستے جو اب سناتے ہیں یقین کرتا ہے کب ان کہانیوں پہ کوئی ہے بات دور کی منزل کا سوچنا اب تو کہ رستہ کھلتا نہیں ہے مسافروں پہ کوئی وہ خوف ہے کہ بدن پتھروں میں ڈھلنے لگے عجب گھڑی کہ دعا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے

    بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے ایک منظر ہے تیرے لیے ایک میرے لیے اک گل خواب ایسا کھلا شاخ مرجھا گئی میں نے مستی میں اک اسم کے سات پھیرے لیے در دریچے مقفل کئے کنجیاں پھینک دیں چل پڑے اپنے کندھوں پہ اپنے بسیرے لیے تیری خاطر مرے گرم خطے کی ٹھنڈی ہوا سب ہری ٹہنیاں اور ان پر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی کہانی کوئی واقعہ سنا تو سہی

    کوئی کہانی کوئی واقعہ سنا تو سہی اگر ہنسا نہیں سکتا مجھے رلا تو سہی کسی کے ہجر کا چھلا کسی وصال کی چھاپ بچھڑ کے مجھ سے تجھے کیا ملا دکھا تو سہی کبھی بلا تو سہی اپنے آستانے پر مجھے بھی اپنا کوئی معجزہ دکھا تو سہی میں خود سے چھپ کے تجھے پیار کرنے آؤں گا تو ایک بار مجھے بھول کر بلا ...

    مزید پڑھیے

    مکان سوئے ہوئے تھے ابھی کہ در جاگے

    مکان سوئے ہوئے تھے ابھی کہ در جاگے تھکن مٹی بھی نہ تھی اور نئے سفر جاگے جو دن چڑھا تو ہمیں نیند کی ضرورت تھی سحر کی آس میں ہم لوگ رات بھر جاگے جکڑ رکھا تھا فضا کو ہمارے نعروں نے جو لب خموش ہوئے تو دلوں میں ڈر جاگے ہمیں ڈرائے گی کیا رات خود ہے سہمی ہوئی بدن تو جاگتے رہتے تھے اب کے ...

    مزید پڑھیے

    مہیب رات کے گنجان پانیوں سے نکل

    مہیب رات کے گنجان پانیوں سے نکل نئی سحر کے ستارے تو چمنیوں سے نکل ہر ایک حد سے پرے اپنا بوریا لے جا بدی کا نام نہ لے اور نیکیوں سے نکل اے میرے مہر تو اس کی چھتوں پہ آخر ہو اے میرے ماہ تو آج اس کی کھڑکیوں سے نکل نکل کے دیکھ تری منتظر قطار قطار عزیز دانۂ گندم تو بوریوں سے نکل تو ...

    مزید پڑھیے

    عجب خوابوں سے میرا رابطہ رکھا گیا

    عجب خوابوں سے میرا رابطہ رکھا گیا مجھے سوئے ہوؤں میں جاگتا رکھا گیا وہ کوئی اور گھر تھے جن میں طیب رزق پہنچے ہمیں تو بس قطاروں میں کھڑا رکھا گیا معطل کر دئے اعضا سے اعضا کے روابط یہاں جسموں کو آنکھوں سے جدا رکھا گیا وہ جس پر صرف پھولوں کی دعائیں پھوٹتی ہیں اسی مٹی میں وہ دست ...

    مزید پڑھیے

    اے سیل آب ٹھہر اب کے گردنوں تک رہ

    اے سیل آب ٹھہر اب کے گردنوں تک رہ تنوں کی تختیاں دھونی ہیں بس تنوں تک رہ جہاں ہے شہر وہاں دور تک درندے ہیں غزل، غزال کے ہونٹوں پہ آ بنوں تک رہ گلی میں تاک میں بیٹھے ہیں طفل سنگ بہ دست اے میری خواہش عیار آنگنوں تک رہ بہت سے کام ہیں جن سے نپٹنا باقی ہے وصال رت تو بڑی شے ہے ساونوں تک ...

    مزید پڑھیے

    پھر اپنی ذات کی تیرہ حدوں سے باہر آ

    پھر اپنی ذات کی تیرہ حدوں سے باہر آ تو اب تو ضبط کے ان شعبدوں سے باہر آ میں دیکھ لوں گا ترے اسپ تیرے زور آور بس ایک بار تو اپنی حدوں سے باہر آ دہک دہک کے بہلتے دنوں کے آنسو پونچھ اذان گنگ مرے گنبدوں سے باہر آ تجھے میں غور سے دیکھوں میں تجھ سے پیار کروں اے میرے بت تو مرے بت کدوں سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2