Javaid Anwar

جاوید انور

جاوید انور کے تمام مواد

12 غزل (Ghazal)

    میری تحریروں کا محور ایک بے سر فاختہ

    میری تحریروں کا محور ایک بے سر فاختہ میرا نعرہ خامشی میرا پیمبر فاختہ ایک آنگن قہقہوں اور سسکیوں سے بے خبر چھت پہ اک پرچم پھٹا سا اور در پر فاختہ تیرے رستوں کی رکاوٹ شاخ اک زیتون کی تیرے ایوانوں کے اندر جاگتا ڈر فاختہ شام پیاری شام اس پر بھی کوئی در کھول دے شاخ پر بیٹھی ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    وہی حرف ہیں وہی ظرف ہیں وہی روز و شب ہیں سراب سے

    وہی حرف ہیں وہی ظرف ہیں وہی روز و شب ہیں سراب سے وہ ملاحتوں کا خمار سا وہ محبتوں کے سحاب سے نہ کسی کمان میں تیر ہے نہ گلاب ہیں کسی ہاتھ میں مرے شہر کے سبھی لوگ ہیں کسی اجنبی سی کتاب سے ترے بعد بھی وہی ڈھنگ ہیں وہی نخل سوختہ رنگ ہیں وہی انتظار طیور ہے وہی برگ سبز کے خواب سے جو کبھی ...

    مزید پڑھیے

    عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی

    عجیب سانحہ گزرا ہے ان گھروں پہ کوئی کہ چونکتا ہی نہیں اب تو دستکوں پہ کوئی اجاڑ شہر کے رستے جو اب سناتے ہیں یقین کرتا ہے کب ان کہانیوں پہ کوئی ہے بات دور کی منزل کا سوچنا اب تو کہ رستہ کھلتا نہیں ہے مسافروں پہ کوئی وہ خوف ہے کہ بدن پتھروں میں ڈھلنے لگے عجب گھڑی کہ دعا بھی نہیں ...

    مزید پڑھیے

    بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے

    بے تکی روشنی میں پرائے اندھیرے لیے ایک منظر ہے تیرے لیے ایک میرے لیے اک گل خواب ایسا کھلا شاخ مرجھا گئی میں نے مستی میں اک اسم کے سات پھیرے لیے در دریچے مقفل کئے کنجیاں پھینک دیں چل پڑے اپنے کندھوں پہ اپنے بسیرے لیے تیری خاطر مرے گرم خطے کی ٹھنڈی ہوا سب ہری ٹہنیاں اور ان پر ...

    مزید پڑھیے

    کوئی کہانی کوئی واقعہ سنا تو سہی

    کوئی کہانی کوئی واقعہ سنا تو سہی اگر ہنسا نہیں سکتا مجھے رلا تو سہی کسی کے ہجر کا چھلا کسی وصال کی چھاپ بچھڑ کے مجھ سے تجھے کیا ملا دکھا تو سہی کبھی بلا تو سہی اپنے آستانے پر مجھے بھی اپنا کوئی معجزہ دکھا تو سہی میں خود سے چھپ کے تجھے پیار کرنے آؤں گا تو ایک بار مجھے بھول کر بلا ...

    مزید پڑھیے

تمام

14 نظم (Nazm)

    ایک شرمندہ نظم

    کن حرفوں کی تفہیم کروں کن رنگوں کی تجسیم کروں کس راہ چلوں اور چلتا جاؤں کھلا نہیں ابھی دروازہ تو کھلا نہیں کس پھول کی مدح لکھوں اے حرف سحر آثار اے یوم آزادی میں نے تو نہیں دیکھا ترے لمس سے کون سا سنگ گلاب ہوا آئنہ آب ہوا اس باغ میں کون سی مشت خاک کھلی خوشبو آزاد ہوئی بے بس اور سات ...

    مزید پڑھیے

    اپاہج دنوں کی ندامت

    کھڑکیاں کھول دو ضبط کی کھڑکیاں کھول دو میں کھلوں جون کی دوپہر میں دسمبر کی شب میں سبھی موسموں کے کٹہرے میں اپنی نفی کا میں اثبات بن کر کھلوں خواہشوں نیند کی جنگلی جھاڑیوں اپنے ہی خون کی دلدلوں میں کھلوں بھائیوں کی پھٹی آستینوں میں بہنوں کے سجدوں میں ماں باپ کے بے زباں درد میں ...

    مزید پڑھیے

    نوائے گمراہ شب

    اے خواب خندہ تجھے تو میں ڈھونڈنے چلا تھا مجھے خبر ہی نہیں تھی تو میری انگلیوں میں کھلا ہوا ہے مرے صدف میں ترے ہی موتی ہیں میری جیبوں میں تیرے سکے کھنک رہے ہیں نوائے گمراہ دشت شب کے نجوم تیری ہتھیلیوں پر چہک رہے ہیں مرے خلا میں تمام سمتیں ترے خلا سے اتر رہی ہیں مجھے خبر ہی نہ تھی کہ ...

    مزید پڑھیے

    ہسٹریا

    وہ خاموش تھی اپنے دوزخ میں جلتی ہوئی نیلگوں پانیوں کے شکنجے میں جکڑی ہوئی اک مچلتی ہوئی موج مہتاب کی سمت لپکی مگر ریت پر آ گری سیپ اگلتی ہوئی خامشی کے بھنور سے نکلتی ہوئی وہ ہنسی اور ہنسی بریزیر میں سے باہر پھسلتی ہوئی اب وہ لڑکی نہیں صرف انگڑائی تھی اک توانائی تھی نیم وا آنکھ ...

    مزید پڑھیے

    ایک انتہائی غیر جذباتی رپورٹ

    سورج ڈھلتا ہے اور بم گرتا ہے اور بم گرتے ہیں سورج ڈھلنے سے سورج چڑھنے تک چڑھے ہوئے دن میں بھی ادھر ادھر بم گرتے رہتے ہیں لیکن کوئی چیخ سنائی نہیں دیتی پہلے دیتی تھی اب کوئی نہیں روتا گہرے گہرے گڑھے ہیں اور گڑھوں میں گلتا ہوا انسانی ماس ہے بچا کھچا اور چاروں جانب اینٹیں پتھر ...

    مزید پڑھیے

تمام