جاناں ملک کی غزل

    دل کی ایک اک کنی بچھاتی ہوں

    دل کی ایک اک کنی بچھاتی ہوں رات بھر روشنی بچھاتی ہوں شاید آج آئے وہ مجھے ملنے صحن میں چاندنی بچھاتی ہوں دیکھیے ڈوبتا ہوا سورج بیٹھیے اوڑھنی بچھاتی ہوں اوڑھ لیتی ہوں ہجر بستر پر اپنی خستہ تنی بچھاتی ہوں خود تو رہتی ہوں دھوپ میں جاناںؔ اس پہ چھاؤں گھنی بچھاتی ہوں

    مزید پڑھیے

    اور مہک تھی جو اس باغ کی گھاس میں تھی

    اور مہک تھی جو اس باغ کی گھاس میں تھی اس کے پاؤں کی خوشبو بھی اس باس میں تھی تجھ بارش نے تن پھولوں سے بھر ڈالا خالی شاخ تھی اور اس رت کی آس میں تھی تو نے آس دلائی مجھ کو جینے کی میں تو سانسیں لیتی مٹی یاس میں تھی یاد تو کر وہ لمحے وہ راتیں وہ دن میں بھی تیرے ساتھ اسی بن باس میں ...

    مزید پڑھیے

    کبھی تو سوچنا تم ان اداس آنکھوں کا

    کبھی تو سوچنا تم ان اداس آنکھوں کا یہ رتجگوں میں گھری محو یاس آنکھوں کا میں گھر گئی تھی کہیں وحشتوں کے جنگل میں تھا اک ہجوم مرے آس پاس آنکھوں کا برہنگی ترے اندر کہیں پنپتی ہے لباس ڈھونڈ کوئی بے لباس آنکھوں کا تمہارے ہجر کا موسم ہی راس آیا مجھے یہی تھا ایک طبیعت شناس آنکھوں ...

    مزید پڑھیے

    دن کی جانب کبھی اس رات سے رستہ نکلے

    دن کی جانب کبھی اس رات سے رستہ نکلے باغ کی سمت بھی فٹ پاتھ سے رستہ نکلے شاید اک اور ملاقات کی امید بندھے اک سر راہ ملاقات سے رستہ نکلے میں بھی اب ڈھونڈھتی رہتی ہوں بہانے کیا کیا اس سے کچھ بات کروں بات سے رستہ نکلے عین ممکن ہے یہ دنیا کا ہو مرکز مری ذات مجھ تک آئے جو سماوات سے ...

    مزید پڑھیے

    کانٹوں جیسی تعبیریں تھی پھولوں جیسے خواب

    کانٹوں جیسی تعبیریں تھی پھولوں جیسے خواب ہم نے چھوٹی عمروں میں بھی کیا کیا دیکھے خواب مجھ کو اس ملبوس میں دیکھ کے خوش تھے سارے لوگ اور کسی نے یہ نہیں پوچھا لڑکی تیرے خواب ایک جگہ پر سونے والے بھی کب یکجا تھے اپنی اپنی نیندیں تھیں اور اپنے اپنے خواب میں ہوں اب اس بستی کی ...

    مزید پڑھیے

    تیز ہوا اور شب بھر بارش

    تیز ہوا اور شب بھر بارش اندر چپ اور باہر بارش ایسے پہلے کب برسی تھیں آنکھیں اور برابر بارش صحرا تو پیاسے کا پیاسا اور بھرے دریا پر بارش اس سر تال کا اور مزا تھا کچے گھر کی چھت پر بارش جھوم رہے ہیں بھیگ رہے ہیں پیڑ پرندے منظر بارش میں نے بادل کو بھیجی تھی اک کاغذ پر لکھ کر ...

    مزید پڑھیے

    کس کی کھوئی ہوئی ہنسی تھی میں

    کس کی کھوئی ہوئی ہنسی تھی میں کس کے ہونٹوں پہ آ گئی تھی میں کن زمانوں پہ منکشف ہوئی ہوں کن زمانوں کی روشنی تھی میں میں کسی شخص کی اداسی تھی سرد لہجے میں بولتی تھی میں دن ڈھلے لوٹتے پرندوں کو گھر کی کھڑکی سے دیکھتی تھی میں کاش اک بار دیکھ لیتے تم راستے میں پڑی ہوئی تھی میں اب ...

    مزید پڑھیے

    دن کے ساتھ اتر جاتی ہوں

    دن کے ساتھ اتر جاتی ہوں شام کے پار ٹھہر جاتی ہوں اس سے بچھڑنے کے اس پل کو سوچتی ہوں تو مر جاتی ہوں صحرا جتنی پیاس ہے میری اور اک بوند سے بھر جاتی ہوں میرا ہاتھ یہ پکڑے رہنا میں خوابوں میں ڈر جاتی ہوں میاں محمد میں تو اپنی گاگر بھر کے گھر جاتی ہوں اپنے آپ سے ہاتھ چھڑا کر میں کن ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2