Jameel Arshad Khan Arshad

جمیل ارشد خاں ارشد

  • 1978

جمیل ارشد خاں ارشد کی غزل

    زخم تنہائی ملا عشق میں رسوائی بھی

    زخم تنہائی ملا عشق میں رسوائی بھی پھر بھی کچھ کم نہ ہوئی عشق کی گہرائی بھی آج ہنس ہنس کے جو غیروں سے ملا کرتا ہے تھا وہی شخص کبھی میرا ہی شیدائی بھی جام آنکھوں کے وہ ہونٹوں کی گلابی کلیاں اور یاد آتی ہے اس کی مجھے انگڑائی بھی بد گماں جس سے کیا کرتا ہے اکثر مجھ کو ہے اسی چاند کا ...

    مزید پڑھیے

    آؤ مل کر سوچیں اس کی تدبیریں

    آؤ مل کر سوچیں اس کی تدبیریں کیسے ٹوٹیں گی قدموں کی زنجیریں جو قومیں ماضی سے درس نہیں لیتیں خاک میں مل جاتی ہیں ان کی تقدیریں وقت نے جانے چہرے پر کیا کیا لکھا الجھی الجھی بوسیدہ سی تحریریں رات گئے جب گھر کو واپس آتا ہوں خاموشی کرتی ملتی ہے تقریریں ارشدؔ میرا آج بھی وہ سرمایہ ...

    مزید پڑھیے

    گردش حالات سے ہوں کیوں پریشاں تتلیاں

    گردش حالات سے ہوں کیوں پریشاں تتلیاں ہیں سرور و کیف و مستی میں یہ رقصاں تتلیاں دیکھ کر رنگیں گلوں کی بے ثباتی نا سمجھ کر رہی ہیں بے وفا بھنوروں سے پیماں تتلیاں مستیوں میں محو ہیں مستوریوں میں کچھ مگر ہیں کھلے بندوں غریق بحر عصیاں تتلیاں مثل پروانہ کھینچی آتی ہیں اس کی دید ...

    مزید پڑھیے