آؤ مل کر سوچیں اس کی تدبیریں

آؤ مل کر سوچیں اس کی تدبیریں
کیسے ٹوٹیں گی قدموں کی زنجیریں


جو قومیں ماضی سے درس نہیں لیتیں
خاک میں مل جاتی ہیں ان کی تقدیریں


وقت نے جانے چہرے پر کیا کیا لکھا
الجھی الجھی بوسیدہ سی تحریریں


رات گئے جب گھر کو واپس آتا ہوں
خاموشی کرتی ملتی ہے تقریریں


ارشدؔ میرا آج بھی وہ سرمایہ ہیں
دھندلی دھندلی عہد کہن کی تصویریں