زخم تنہائی ملا عشق میں رسوائی بھی
زخم تنہائی ملا عشق میں رسوائی بھی پھر بھی کچھ کم نہ ہوئی عشق کی گہرائی بھی آج ہنس ہنس کے جو غیروں سے ملا کرتا ہے تھا وہی شخص کبھی میرا ہی شیدائی بھی جام آنکھوں کے وہ ہونٹوں کی گلابی کلیاں اور یاد آتی ہے اس کی مجھے انگڑائی بھی بد گماں جس سے کیا کرتا ہے اکثر مجھ کو ہے اسی چاند کا ...