Jamal Ehsani

جمال احسانی

اہم ترین ما بعد جدید پاکستانی شاعروں میں سے ایک، اپنے انفرادی شعری تجربے کے لیے معروف

One of most prominent post-modern Pakistani poets, known for the uniqueness of his poetic experience.

جمال احسانی کی غزل

    جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے

    جب کبھی خواب کی امید بندھا کرتی ہے نیند آنکھوں میں پریشان پھرا کرتی ہے یاد رکھنا ہی محبت میں نہیں ہے سب کچھ بھول جانا بھی بڑی بات ہوا کرتی ہے دیکھ بے چارگیٔ کوئے محبت کوئی دم سائے کے واسطے دیوار دعا کرتی ہے صورت دل بڑے شہروں میں رہ یک طرفہ جانے والوں کو بہت یاد کیا کرتی ہے دو ...

    مزید پڑھیے

    چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا

    چشم حیراں کو تماشائے دگر پر رکھا اور اس دل کو تری خیر خبر پر رکھا عین ممکن ہے چراغوں کو وہ خاطر میں نہ لائے گھر کا گھر ہم نے اٹھا راہ گزر پر رکھا بوجھ سے جھکنے لگی شاخ تو جا کر ہم نے آشیانے کو کسی اور شجر پر رکھا چمن دہر میں اس طرح بسر کی ہم نے سایۂ گل کا بھی احسان نہ سر پر ...

    مزید پڑھیے

    اپنے ہمراہ جلا رکھا ہے

    اپنے ہمراہ جلا رکھا ہے طاق دل پر جو دیا رکھا ہے جنبش لب نہ سہی تیرے خلاف ہاتھ کو ہم نے اٹھا رکھا ہے تو مجھے چھوڑ کے جا سکتا نہیں چھوڑ اس بات میں کیا رکھا ہے وہ ملا دے گا ہمیں بھی جس نے آب اور گل کو ملا رکھا ہے مجھ کو معلوم ہے میری خاطر کہیں اک جال بنا رکھا ہے جانتا ہوں مرے قصہ گو ...

    مزید پڑھیے

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا

    چراغ سامنے والے مکان میں بھی نہ تھا یہ سانحہ مرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا جو پہلے روز سے دو آنگنوں میں تھا حائل وہ فاصلہ تو زمین آسمان میں بھی نہ تھا یہ غم نہیں ہے کہ ہم دونوں ایک ہو نہ سکے یہ رنج ہے کہ کوئی درمیان میں بھی نہ تھا ہوا نہ جانے کہاں لے گئی وہ تیر کہ جو نشانے پر بھی ...

    مزید پڑھیے

    وہ بھی ملنے نئی پوشاک بدل کر آیا

    وہ بھی ملنے نئی پوشاک بدل کر آیا میں جو کل پیرہن خاک بدل کر آیا اے زمیں زاد تری رفعتیں چھونے کے لیے تجھ تلک میں کئی افلاک بدل کر آیا اس کو راس آئی ہے یہ بزم جہاں جو بھی یہاں اپنا پیمانۂ ادراک بدل کر آیا عشق میں کوئی تکلف کی ضرورت تو نہیں پھر وہ کیوں دیدۂ نمناک بدل کر آیا ہم سے ...

    مزید پڑھیے

    ہونے کی گواہی کے لیے خاک بہت ہے

    ہونے کی گواہی کے لیے خاک بہت ہے یا کچھ بھی نہیں ہونے کا ادراک بہت ہے اک بھولی ہوئی بات ہے اک ٹوٹا ہوا خواب ہم اہل محبت کو یہ املاک بہت ہے کچھ در بدری راس بہت آئی ہے مجھ کو کچھ خانہ خرابوں میں مری دھاک بہت ہے پرواز کو پر کھول نہیں پاتا ہوں اپنے اور دیکھنے میں وسعت افلاک بہت ...

    مزید پڑھیے

    سنگ کو تکیہ بنا خواب کو چادر کر کے

    سنگ کو تکیہ بنا خواب کو چادر کر کے جس جگہ تھکتا ہوں پڑ رہتا ہوں بستر کر کے اب کسی آنکھ کا جادو نہیں چلتا مجھ پر وہ نظر بھول گئی ہے مجھے پتھر کر کے یار لوگوں نے بہت رنج دیے تھے مجھ کو جا چکا ہے جو حساب اپنا برابر کر کے اس کو بھی پڑ گیا اک اور ضروری کوئی کام میں بھی گھر پر نہ رہا وقت ...

    مزید پڑھیے

    ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی

    ایک فقیر چلا جاتا ہے پکی سڑک پر گاؤں کی آگے راہ کا سناٹا ہے پیچھے گونج کھڑاؤں کی آنکھوں آنکھوں ہریالی کے خواب دکھائی دینے لگے ہم ایسے کئی جاگنے والے نیند ہوئے صحراؤں کی اپنے عکس کو چھونے کی خواہش میں پرندہ ڈوب گیا پھر کبھی لوٹ کر آئی نہیں دریا پر گھڑی دعاؤں کی ڈار سے بچھڑا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    کب دل کے آئنے میں وہ منظر نہیں رہا

    کب دل کے آئنے میں وہ منظر نہیں رہا آنکھوں کے سامنے جو کہ پل بھر نہیں رہا پیروں تلے زمین نہیں تھی تو جی لئے لیکن اب آسمان بھی سر پر نہیں رہا تیرے خیال میں کبھی اس طرح کھو گئے تیرا خیال بھی ہمیں اکثر نہیں رہا وہ قحط سنگ ہے سر ساحل کہ الاماں پانی میں پھینکنے کو بھی پتھر نہیں ...

    مزید پڑھیے

    سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ

    سب بدلتے جا رہے ہیں سر بسر اپنی جگہ دشت اب اپنی جگہ باقی نہ گھر اپنی جگہ میں بھی نادم ہوں کہ سب کے ساتھ چل سکتا نہیں اور شرمندہ ہیں میرے ہم سفر اپنی جگہ کیوں سمٹتی جا رہی ہیں خود بہ خود آبادیاں چھوڑتے کیوں جا رہے ہیں بام و در اپنی جگہ جو کچھ ان آنکھوں نے دیکھا ہے میں اس کا کیا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 5