Jamal Ehsani

جمال احسانی

اہم ترین ما بعد جدید پاکستانی شاعروں میں سے ایک، اپنے انفرادی شعری تجربے کے لیے معروف

One of most prominent post-modern Pakistani poets, known for the uniqueness of his poetic experience.

جمال احسانی کی غزل

    ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں

    ذرا سی بات پہ دل سے بگاڑ آیا ہوں بنا بنایا ہوا گھر اجاڑ آیا ہوں وہ انتقام کی آتش تھی میرے سینے میں ملا نہ کوئی تو خود کو پچھاڑ آیا ہوں میں اس جہان کی قسمت بدلنے نکلا تھا اور اپنے ہاتھ کا لکھا ہی پھاڑ آیا ہوں اب اپنے دوسرے پھیرے کے انتظار میں ہوں جہاں جہاں مرے دشمن ہیں تاڑ آیا ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں

    گھر سے جاتا ہوں روز شام سے میں رات بھر کے پروگرام سے میں اے میری جان انتشار پسند تنگ ہوں تیرے انتظام سے میں یہ جو لڑتا جھگڑتا ہوں سب سے بچ رہا ہوں قبول عام سے میں میں اتارا گیا تھا عرش سے اور فرش پر گر پڑا دھڑام سے میں شکل کا لاحقہ نہیں ہمراہ جانا جاتا ہوں صرف نام سے میں کیا ...

    مزید پڑھیے

    ایک قدم خشکی پر ہے اور دوسرا پانی میں

    ایک قدم خشکی پر ہے اور دوسرا پانی میں ساری عمر بسر کر دی ہے نقل مکانی میں آنسو بہتے ہیں اور دل یہ سوچ کے ڈرتا ہے آنکھ کہیں کوئی بات نہ کہہ دے اس سے روانی میں راہ میں سارے چراغ اسی کے دم سے روشن ہیں جو پیماں ہوا سے باندھا تھا نادانی میں سارے ساحل سارے ساگر اس کی ہیں میراث جس کے ...

    مزید پڑھیے

    سمندروں کے درمیان سو گئے

    سمندروں کے درمیان سو گئے تھکے ہوئے جہاز ران سو گئے دریچہ ایک ہولے ہولے کھل گیا جب اس گلی کے سب مکان سو گئے سلگتی دوپہر میں سب دکان دار کھلی ہی چھوڑ کر دکان سو گئے پھر آج اک ستارہ جاگتا رہا پھر آج سات آسمان سو گئے ہوا چلی کھلے سمندروں کے بیچ تھکن سے چور بادبان سو گئے سحر ہوئی ...

    مزید پڑھیے

    جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی

    جو بیل میرے قد سے ہے اوپر لگی ہوئی افسوس ہر بساط سے باہر لگی ہوئی اس کی تپش نے اور بھی سلگا رکھا ہے کچھ جو آگ ہے مکان سے باہر لگی ہوئی سنتے ہیں اس نے ڈھونڈ لیا اور کوئی گھر اب تک جو آنکھ تھی ترے در پر لگی ہوئی پہچان کی نہیں ہے یہ عرفان کی ہے بات تختی کوئی نہیں مرے گھر پر لگی ...

    مزید پڑھیے

    واقعی کوئی اگر موجود ہے

    واقعی کوئی اگر موجود ہے پھر تو یہ دکھ عمر بھر موجود ہے بیچ کا رستہ نہیں باقی کوئی یا خدا ہے یا بشر موجود ہے اس کو پانے کی توقع ہے بہت جب تلک یہ چشم تر موجود ہے اس کے ملنے ہی سے پہلے جانے کیوں اس کو کھو دینے کا ڈر موجود ہے کوئی منزل کیسے تنہا سر کریں ہم سفر میں ہم سفر موجود ...

    مزید پڑھیے

    کہنی ہے ایک بات دل شاد کام سے

    کہنی ہے ایک بات دل شاد کام سے تنگ آ گیا ہوں یار محبت کے نام سے میں ہوں کہ مجھ کو دیدۂ بینا کا روگ ہے اور لوگ ہیں کہ کام انہیں اپنے کام سے عشاق ہیں کہ مرنے کی لذت سے ہیں نڈھال شمشیر ہے کہ نکلی نہیں ہے نیام سے جب اس نے جا کے پہلوئے گل میں نشست کی باد صبا بچھڑ گئی اپنے خرام سے وحشت ...

    مزید پڑھیے

    کب پاؤں فگار نہیں ہوتے کب سر میں دھول نہیں ہوتی

    کب پاؤں فگار نہیں ہوتے کب سر میں دھول نہیں ہوتی تری راہ پہ چلنے والوں سے لیکن کبھی بھول نہیں ہوتی سر کوچۂ عشق آ پہنچے ہو لیکن ذرا دھیان رہے کہ یہاں کوئی نیکی کام نہیں آتی کوئی دعا قبول نہیں ہوتی ہر چند اندیشۂ جاں ہے بہت لیکن اس کار محبت میں کوئی پل بے کار نہیں جاتا کوئی بات فضول ...

    مزید پڑھیے

    اس سمے کوئی نہیں میری نگہبانی پر

    اس سمے کوئی نہیں میری نگہبانی پر یہ گھڑی سخت کڑی ہے ترے زندانی پر با خبر کر کے رہ عشق کی مشکل سے تجھے فیصلہ چھوڑ دیا ہے تری آسانی پر نہ ہوا اور نہ مٹی پہ کبھی ہو پایا جو بھروسا ہے مجھے بہتے ہوئے پانی پر میں ابھی پہلے خسارے سے نہیں نکلا ہوں پھر بھی تیار ہے دل دوسری نادانی پر کسی ...

    مزید پڑھیے

    ہر قرض سفر چکا دیا ہے

    ہر قرض سفر چکا دیا ہے دشت اور نگر ملا دیا ہے جز عشق کسے ملی یہ توفیق جو پایا اسے گنوا دیا ہے پہلے ہی بہت تھا ہجر کا رنج اب فاصلوں نے بڑھا دیا ہے آبادیوں سے گئے ہوؤں کو صحراؤں نے حوصلہ دیا ہے دیوار بدست راہرو تھے کس نے کسے راستہ دیا ہے بچھڑا تو تسلی دی ہے اس نے کس دھند میں آئنہ ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5