وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا
وصل میں وہ چھیڑنے کا حوصلہ جاتا رہا تم گلے سے کیا ملے سارا گلہ جاتا رہا یار تک پہنچا دیا بیتابی دل نے ہمیں اک تڑپ میں منزلوں کا فاصلہ جاتا رہا ایک تو آنکھیں دکھائیں پھر یہ شوخی سے کہا کہیے اب تو کم نگاہی کا گلہ جاتا رہا روز جاتے تھے خط اپنے روز آتے تھے پیام ایک مدت ہو گئی وہ ...