ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے
ہم تو قصوروار ہوئے آنکھ ڈال کے پوچھو کہ نکلے کیوں تھے وہ جوبن نکال کے آنکھوں سے خواب کا ہو گزر کیا مجال ہے پہرے بٹھا دیے ہیں کسی کے خیال کے دل میں وہ بھیڑ ہے کہ ذرا بھی نہیں جگہ آپ آئیے مگر کوئی ارماں نکال کے صد شکر وصف قد پہ وہ اتنا تو پھول اٹھے مضموں بلند ہیں مرے عالی خیال ...