Jaleel Hashmi

جلیل حشمی

جلیل حشمی کی غزل

    میں خدا بھی تو نہیں کیوں مجھے تنہا لکھ دے

    میں خدا بھی تو نہیں کیوں مجھے تنہا لکھ دے اب مرے نام کی سولی پہ مسیحا لکھ دے ایسے سناٹے سے بہتر ہے شکستوں کی صدا میری مٹی میں اک اڑتا ہوا پتا لکھ دے دے وہ عنواں کہ ضرورت نہ کہانی کی پڑے باغباں سبزے پہ خاکستر غنچہ لکھ دے رات بھر تیرے اجالوں کی قسم کھاؤں میں تو سر شام مری شمع کا ...

    مزید پڑھیے

    گھر سے باہر کبھی نکلا کیجے

    گھر سے باہر کبھی نکلا کیجے حشمیؔ گلیوں میں ٹہلا کیجے حسن باتوں میں بھی پیدا کیجے سامنے آئنہ رکھا کیجے کیوں کسی اور کو رسوا کیجے اب کے اپنا ہی تماشا کیجے پہلے خود آپ کو پرکھا کیجے اور پھر شکوۂ دنیا کیجے کہیں سولی نہ سمجھے لے کوئی اپنی بانہوں کو نہ کھولا کیجے سوچئے پھول کھلا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2