میں خدا بھی تو نہیں کیوں مجھے تنہا لکھ دے
میں خدا بھی تو نہیں کیوں مجھے تنہا لکھ دے اب مرے نام کی سولی پہ مسیحا لکھ دے ایسے سناٹے سے بہتر ہے شکستوں کی صدا میری مٹی میں اک اڑتا ہوا پتا لکھ دے دے وہ عنواں کہ ضرورت نہ کہانی کی پڑے باغباں سبزے پہ خاکستر غنچہ لکھ دے رات بھر تیرے اجالوں کی قسم کھاؤں میں تو سر شام مری شمع کا ...