سانس لیجے تو بکھر جاتے ہیں جیسے غنچے
سانس لیجے تو بکھر جاتے ہیں جیسے غنچے اب کے آواز میں بجتے ہیں خزاں کے پتے چڑھتے سورج پہ پڑیں سائے ہم آواروں کے وہ دیا اب کے ہتھیلی پہ جلا کر چلیے شام کو گھر سے نکل کر نہ پلٹنے والے در و دیوار سے سائے ترے رخصت نہ ہوئے بے وفا کہہ کے تجھے اپنا بھرم کیوں کھولیں اے سبک گام ہمیں رہ گئے ...