Jaleel Hashmi

جلیل حشمی

جلیل حشمی کی غزل

    سانس لیجے تو بکھر جاتے ہیں جیسے غنچے

    سانس لیجے تو بکھر جاتے ہیں جیسے غنچے اب کے آواز میں بجتے ہیں خزاں کے پتے چڑھتے سورج پہ پڑیں سائے ہم آواروں کے وہ دیا اب کے ہتھیلی پہ جلا کر چلیے شام کو گھر سے نکل کر نہ پلٹنے والے در و دیوار سے سائے ترے رخصت نہ ہوئے بے وفا کہہ کے تجھے اپنا بھرم کیوں کھولیں اے سبک گام ہمیں رہ گئے ...

    مزید پڑھیے

    جو شکوہ کرتے ہیں حشمیؔ سے کم نمائی کا

    جو شکوہ کرتے ہیں حشمیؔ سے کم نمائی کا انہیں بھی ڈر ہے زمانے کی کج ادائی کا پھرے ہیں دھوپ میں سائے کو ساتھ ساتھ لیے کہ کھل نہ جائے بھرم اپنی بے نوائی کا مگر کچھ اور ہے یاری کی بات شوق سے تم لگاؤ چہروں پہ الزام آشنائی کا عرق عرق تھے ندامت کی آنچ سے خود ہی گلہ کریں بھی تو کیا تیری ...

    مزید پڑھیے

    جو تیری افشاں سنواریں زندگی اے زندگی

    جو تیری افشاں سنواریں زندگی اے زندگی روز و شب ایسے گزاریں زندگی اے زندگی بڑھ گیا دریا کا پانی کف اڑاتا موج موج اڑ گئیں کونجوں کی ڈاریں زندگی اے زندگی ہر طرف چھایا ہوا ہے اک سکوت بے کراں پھر بھی ہم تجھ کو پکاریں زندگی اے زندگی تیری صورت پر گمان دشت و صحرا ہائے ہائے تیرے قدموں ...

    مزید پڑھیے

    ہم زمانے میں محبت کے بھکاری ٹھہرے

    ہم زمانے میں محبت کے بھکاری ٹھہرے دوست ہیں سب کے مگر دشمن جاں ہیں اپنے آج کی رات کہیں شعلۂ گل ہی بھڑکے جانے کل صبح کہاں ہوں گے ہم اڑتے پتے جان من اب کے یہ آداب ہیں تیرے کیسے بانکپن میری غزل کا تری محفل میں لٹے وہ صبا ہے تو رہے کس لئے گلشن سے پرے یہ شب گل ہے تو کیوں سیج پہ کانٹوں ...

    مزید پڑھیے

    کہی نہ ان سے جو ہونٹوں پہ بات آئی بھی

    کہی نہ ان سے جو ہونٹوں پہ بات آئی بھی کہ آشنائی بھی تھی شرم آشنائی بھی کوئی طلب تھی تو دست سوال پھیلاتے مگر ملی تھی کہاں صورت گدائی بھی کہو ہوا سے چلے آج رات تھم تھم کر کہ آگ ہے مرے دامن میں کچھ پرائی بھی ترے کرم کے فسانے تو شہر بھر سے کہے ترے ستم کی کہاں جا کے دیں دہائی بھی تری ...

    مزید پڑھیے

    اتنے تنہا ہیں کہ اب پھرتے ہیں ہم دھوپوں میں

    اتنے تنہا ہیں کہ اب پھرتے ہیں ہم دھوپوں میں ساتھ سایا ہو تو کچھ بات کریں رستوں میں اے بہار اس کو نہ دے سایۂ گل میں آواز ہے ہوائے‌ چمنی اڑتے ہوئے پتوں میں تو دکھانی نہیں دیتا تو شکایت کیسی تیری آواز تو آتی ہے مری سانسوں میں میرا چہرہ کسی اجڑے ہوئے گھر کی صورت اور دھواں بجھتے ...

    مزید پڑھیے

    سیکھ لیا جینا میں نے

    سیکھ لیا جینا میں نے اتنا زہر پیا میں نے شکوہ نہیں کیا میں نے آنسو پونچھ لیا میں نے ان سے مل کر آیا ہوں خواب نہیں دیکھا میں نے ہوا کو آتے جب دیکھا روشن کیا دیا میں نے پیاسا تھا کرتا بھی کیا لکھ ڈالا دریا میں نے پرچم سا لہرایا ہوں کھائی تیز ہوا میں نے حسن چمن لکھتا کیسے پڑھا ...

    مزید پڑھیے

    لوگ کیوں ہم سے شکایت کی توقع رکھیں

    لوگ کیوں ہم سے شکایت کی توقع رکھیں ہیں خود آزار بھی اتنے کہ ستم گر روئیں اب تو آتی ہیں کچھ اس طرح تمہاری یادیں دھوپ میں جیسے کسی چہرے سے بادل گزریں ماتم غنچہ میں روئے ہیں ندامت ہے بہت شدت غم میں رہا پاس تبسم نہ ہمیں اب غم دل کا سفینہ ہے کہ دریا مانگے اور یہ رونا ہے کہ آنسو بھی ...

    مزید پڑھیے

    خاک ان گلیوں کی پلکوں سے بہت چھانی تھی

    خاک ان گلیوں کی پلکوں سے بہت چھانی تھی پھر بھی صورت مری اس شہر میں انجانی تھی ہم بھی کچھ اپنی وفاؤں پہ ہوئے تھے نادم ان کو بھی ترک تعلق پہ پشیمانی تھی خود فریبی تو الگ بات ہے ورنہ ہم نے اپنی صورت کہاں آئینے میں پہچانی تھی زندگی سنگ بنی تھی تجھے رخصت کر کے دل نہ دھڑکا تھا تو مرنے ...

    مزید پڑھیے

    شاخچہ خاک‌‌ گلستاں میں پڑا ہے یارو

    شاخچہ خاک‌‌ گلستاں میں پڑا ہے یارو اس سے احسان بہاراں نہ اٹھا ہے یارو تم نے پوچھا ہے نہ کچھ ہم نے کہا ہے یارو حادثہ ہم پہ جو گزرا ہے تو کیا ہے یارو کر گیا خاک ہمیں رخصت گل کا منظر زخم نظارہ مگر اب بھی ہرا ہے یارو مریم شام کھلے بال پھر آتی دیکھو پھر مسیحا کوئی سولی پہ چڑھا ہے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2