مسافتیں کب گمان میں تھیں سفر سے آگے
مسافتیں کب گمان میں تھیں سفر سے آگے نکل گئے اپنی دھن میں اس کے نگر سے آگے شجر سے اک عمر کی رفاقت کے سلسلے ہیں نگاہ اب دیکھتی ہے برگ و ثمر سے آگے یہ دل شب و روز اس کی گلیوں میں گھومتا ہے وہ شہر جو بس رہا ہے دشت نظر سے آگے خجل خیالوں کی بھیڑ حیرت سے تک رہی ہے گزر گیا رہرو تمنا کدھر ...