Jalaluddin Akbar

جلال الدین اکبر

  • 1905 - 1940

جلال الدین اکبر کی غزل

    یہ کائنات یہ بزم ظہور کچھ بھی نہیں

    یہ کائنات یہ بزم ظہور کچھ بھی نہیں تری نظر میں نہیں ہے جو نور کچھ بھی نہیں نگہ اگر ہو تو ہر ذرہ میں ہزاروں طور نگہ اگر نہ ہو بالائے طور کچھ بھی نہیں یہ قرب و بعد بہ مقدار شوق سالک ہیں جسے تو دور سمجھتا ہے دور کچھ بھی نہیں

    مزید پڑھیے

    حسن اگر آشکار ہو جائے

    حسن اگر آشکار ہو جائے فتنۂ روزگار ہو جائے دل کو اس طرح دیکھنے والے دل اگر بے قرار ہو جائے شوخئ یار کا تقاضا ہے شوق بے اختیار ہو جائے کوئی شکوہ رہے نہ اکبرؔ کو تو اگر ایک بار ہو جائے

    مزید پڑھیے

    خاموش ہیں لب اور آنکھوں سے آنسو ہیں کہ پیہم بہتے ہیں

    خاموش ہیں لب اور آنکھوں سے آنسو ہیں کہ پیہم بہتے ہیں ہم سامنے ان کے بیٹھے ہیں اور قصۂ فرقت کہتے ہیں اب حسن و عشق میں فرق نہیں اب دونوں کی اک حالت ہے میں ان کو دیکھتا رہتا ہوں وہ مجھ کو دیکھتے رہتے ہیں ان کی وہ حیا وہ خاموشی اپنی وہ محبت کی نظریں وہ سننے کو سب کچھ سنتے ہیں ہم کہنے ...

    مزید پڑھیے

    یہ بھول بھی کیا بھول ہے یہ یاد بھی کیا یاد

    یہ بھول بھی کیا بھول ہے یہ یاد بھی کیا یاد تو یاد ہے اور کوئی نہیں تیرے سوا یاد اس حسن تعلق کا ادا شکر ہو کیوں کر میں نے جو کیا یاد تو اس نے بھی کیا یاد اس مرد خدا مست کی کیا بات ہے اکبرؔ جس کو نہ رہا کچھ بھی بجز یاد خدا یاد

    مزید پڑھیے

    ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی (ردیف .. ے)

    ترا وصل ہے مجھے بے خودی ترا ہجر ہے مجھے آگہی ترا وصل مجھ کو فراق ہے ترا ہجر مجھ کو وصال ہے میں ہوں در پر اس کے پڑا ہوا مجھے اور چاہیئے کیا بھلا مجھے بے پری کا ہو کیا گلا مری بے پری پر و بال ہے وہی میں ہوں اور وہی زندگی وہی صبح و شام کی سر خوشی وہی میرا حسن خیال ہے وہی ان کی شان جمال ...

    مزید پڑھیے