حسن اگر آشکار ہو جائے

حسن اگر آشکار ہو جائے
فتنۂ روزگار ہو جائے


دل کو اس طرح دیکھنے والے
دل اگر بے قرار ہو جائے


شوخئ یار کا تقاضا ہے
شوق بے اختیار ہو جائے


کوئی شکوہ رہے نہ اکبرؔ کو
تو اگر ایک بار ہو جائے