Jafar Shirazi

جعفر شیرازی

جعفر شیرازی کی غزل

    جی لرزتا ہے امڈتی ہوئی تنہائی سے

    جی لرزتا ہے امڈتی ہوئی تنہائی سے اب نکالو مجھے اس رات کی پہنائی سے آئی یادوں کی ہوا گھلنے لگا کان میں زہر بجھ گئی شام بھی بجتی ہوئی شہنائی سے پوچھتا پھرتا ہوں گلیوں کے اجڑنے کا سبب ہر طرف جمع ہیں کیا لوگ تماشائی سے سامنے پھیلا ہوا دشت کا سناٹا ہے اب کہاں بچ کے چلیں ہم دل سودائی ...

    مزید پڑھیے

    ارض و سما پہ رنگ تھا کیسا اتر گیا

    ارض و سما پہ رنگ تھا کیسا اتر گیا آندھی چلی تو شام کا چہرہ اتر گیا طوفاں کی زد نہ شور تلاطم مجھے بتاؤ میں موج میں نہیں ہوں کہ دریا اتر گیا کیا کیا رہی کنار محبت کی دھن مجھے جن پانیوں میں اس نے اتارا اتر گیا اک کشمکش میں اب ہیں سمندر پڑے ہوئے صحرا کی تہہ میں پھر کوئی پیاسا اتر ...

    مزید پڑھیے

    بہ سطح آب کوئی عکس ناتواں نہ پڑا

    بہ سطح آب کوئی عکس ناتواں نہ پڑا ہوا گزر بھی گئی اور کہیں نشاں نہ پڑا بڑے سکون سے دیکھا ہے جلتے لمحوں کو ہماری آنکھ میں ورنہ دھواں کہاں نہ پڑا کٹھن بھی ایسا نہ تھا میری تیری صلح کا کام کوئی بھی شخص مرے تیرے درمیاں نہ پڑا ہوئے ہیں خاک خموشی کے دشت میں کھو کر ہمارے کان میں ہی شور ...

    مزید پڑھیے

    پتہ ملا ہے وہ تھا میرا ہم سفر بہت دیر بعد جا کر

    پتہ ملا ہے وہ تھا میرا ہم سفر بہت دیر بعد جا کر کہاں کہاں سے ملی ہے مجھ کو خبر بہت دیر بعد جا کر میں مدتوں سقف زندگی پر کھڑے کھڑے تم کو دیکھ آیا یہ تم بھی کیا ہو کہ آئے مجھ کو نظر بہت دیر بعد جا کر مری تمنا ہے اب کے تم پھر ملو تو جی بھر کے مسکرائیں کہ دیکھنا ہے یہ روشنی کا سفر بہت ...

    مزید پڑھیے

    جان ایسے خوابوں سے کس طرح چھڑاؤں میں

    جان ایسے خوابوں سے کس طرح چھڑاؤں میں شہر سو گیا سارا اب کسے جگاؤں میں پائمال سبزے پر دیکھ کر گرے پتے اب زمین سے خود کو کس طرح اٹھاؤں میں ان اکیلی راتوں میں ان اکیلے رستوں پر کس کے ساتھ آؤں میں کس کے ساتھ جاؤں میں ایک ہی سی تنہائی ایک ہی سا سناٹا دشت کیا ہے دل کیا ہے کیا تجھے ...

    مزید پڑھیے

    دل ناداں کوئی محشر نہ اٹھانا اس وقت

    دل ناداں کوئی محشر نہ اٹھانا اس وقت آ رہا ہے مری باتوں میں زمانا اس وقت کرب تنہائی کی تاویل تو مشکل ہے بہت کیسے چپ چاپ ہوا آپ کا آنا اس وقت رسم تجدید مراسم بھی ضروری ہے مگر یاد آیا ہے مجھے وقت پرانا اس وقت یہ گھڑی کوئی فراموش نہیں کر سکتا میری آنکھوں میں ہے اک خواب سہانا اس ...

    مزید پڑھیے

    اپنے احساس سے باہر نہیں ہونے دیتا

    اپنے احساس سے باہر نہیں ہونے دیتا راز ظاہر بھی یہ مجھ پر نہیں ہونے دیتا خوف رسوائی سے کر دیتا ہے حیراں ایسا میری آنکھوں کو سمندر نہیں ہونے دیتا موم کر دیتا ہے جب لوٹ کے آ جاتا ہے مجھ کو فرقت میں وہ پتھر نہیں ہونے دیتا دیکھتا ہوں تو کبھی چاند کبھی پھول ہے وہ اپنی صورت مجھے ازبر ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2