Jafar Shirazi

جعفر شیرازی

جعفر شیرازی کے تمام مواد

17 غزل (Ghazal)

    ہوا کا شور صدائے سحاب میرے لئے

    ہوا کا شور صدائے سحاب میرے لئے جہان جبر کا ہر اضطراب میرے لیے سلگتا جاتا ہوں میں اور پڑھتا جاتا ہوں کھلا پڑا ہے زمانے کا باب میرے لیے میں منتظر تھا جہاں پر گلاب کھلنے کا وہیں پریشاں تھی بوئے گلاب میرے لیے یہ میری عمر کی شب یہ اڑی ہوئی نیندیں نہ کوئی خواب نہ افسون خواب میرے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھوں تو مرے دل میں اترتا ہے زیادہ

    دیکھوں تو مرے دل میں اترتا ہے زیادہ شعلہ کہ تہہ آب نکھرتا ہے زیادہ کیا جانیے کیا بات ہے اب دشت کی نسبت دل خامشیٔ شہر سے ڈرتا ہے زیادہ اندر کا وہی روگ اسے بھی ہے مجھے بھی بنتا ہے زیادہ وہ سنورتا ہے زیادہ جو آنکھ کے جلتے ہوئے صحرا سے پرے ہے بادل اسی رستے سے گزرتا ہے زیادہ رخ شہر ...

    مزید پڑھیے

    دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک

    دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک رات تنہائی میں کالا ابر برسا دیر تک تو یہ کہتا ہے کہ تو کل رات میرے ساتھ تھا میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ کو ڈھونڈا دیر تک پاس رکھ کر اجلے اجلے دودھ سے یادوں کے جسم دیر سے بیٹھا ہوں میں بیٹھا رہوں گا دیر تک پہلے تیری چاہتوں کے غم تھے اب فرقت ...

    مزید پڑھیے

    سورج چھپا اک اک گل منظر بکھر گیا

    سورج چھپا اک اک گل منظر بکھر گیا شعلہ سا کوئی دل میں اتر کر بکھر گیا تھا چاندنی کا جسم کہ شیشے کا تھا بدن آئی ہوا تو گر کے زمیں پر بکھر گیا کل ہنس کے ریگ دشت سے کہتی تھی زندگی میں نے چھوا ہی تھا کہ وہ پتھر بکھر گیا ندی پہ ایک نرم کرن نے رکھا جو پاؤں چاروں طرف صدا کا سمندر بکھر ...

    مزید پڑھیے

    راستوں میں ڈھیر ہو کر پھول سے پیکر گرے

    راستوں میں ڈھیر ہو کر پھول سے پیکر گرے برگ کتنے آندھیوں کے پاؤں میں آ کر گرے اے جنوں کی ساعتو آمد بہاروں کی ہوئی دیکھنا وہ شاخچوں سے تتلیوں کے پر گرے تم نہ سن پائے صدا دل ٹوٹنے کی اور یہاں شور وہ اٹھا زمیں پر جس طرح امبر گرے کون جانے کتنی یادوں سے ہوا دل زخم زخم چاندنی برسی کہ ...

    مزید پڑھیے

تمام