Jafar Shirazi

جعفر شیرازی

جعفر شیرازی کی غزل

    ہوا کا شور صدائے سحاب میرے لئے

    ہوا کا شور صدائے سحاب میرے لئے جہان جبر کا ہر اضطراب میرے لیے سلگتا جاتا ہوں میں اور پڑھتا جاتا ہوں کھلا پڑا ہے زمانے کا باب میرے لیے میں منتظر تھا جہاں پر گلاب کھلنے کا وہیں پریشاں تھی بوئے گلاب میرے لیے یہ میری عمر کی شب یہ اڑی ہوئی نیندیں نہ کوئی خواب نہ افسون خواب میرے ...

    مزید پڑھیے

    دیکھوں تو مرے دل میں اترتا ہے زیادہ

    دیکھوں تو مرے دل میں اترتا ہے زیادہ شعلہ کہ تہہ آب نکھرتا ہے زیادہ کیا جانیے کیا بات ہے اب دشت کی نسبت دل خامشیٔ شہر سے ڈرتا ہے زیادہ اندر کا وہی روگ اسے بھی ہے مجھے بھی بنتا ہے زیادہ وہ سنورتا ہے زیادہ جو آنکھ کے جلتے ہوئے صحرا سے پرے ہے بادل اسی رستے سے گزرتا ہے زیادہ رخ شہر ...

    مزید پڑھیے

    دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک

    دن دہکتی دھوپ نے مجھ کو جلایا دیر تک رات تنہائی میں کالا ابر برسا دیر تک تو یہ کہتا ہے کہ تو کل رات میرے ساتھ تھا میں یہ کہتا ہوں کہ میں نے تجھ کو ڈھونڈا دیر تک پاس رکھ کر اجلے اجلے دودھ سے یادوں کے جسم دیر سے بیٹھا ہوں میں بیٹھا رہوں گا دیر تک پہلے تیری چاہتوں کے غم تھے اب فرقت ...

    مزید پڑھیے

    سورج چھپا اک اک گل منظر بکھر گیا

    سورج چھپا اک اک گل منظر بکھر گیا شعلہ سا کوئی دل میں اتر کر بکھر گیا تھا چاندنی کا جسم کہ شیشے کا تھا بدن آئی ہوا تو گر کے زمیں پر بکھر گیا کل ہنس کے ریگ دشت سے کہتی تھی زندگی میں نے چھوا ہی تھا کہ وہ پتھر بکھر گیا ندی پہ ایک نرم کرن نے رکھا جو پاؤں چاروں طرف صدا کا سمندر بکھر ...

    مزید پڑھیے

    راستوں میں ڈھیر ہو کر پھول سے پیکر گرے

    راستوں میں ڈھیر ہو کر پھول سے پیکر گرے برگ کتنے آندھیوں کے پاؤں میں آ کر گرے اے جنوں کی ساعتو آمد بہاروں کی ہوئی دیکھنا وہ شاخچوں سے تتلیوں کے پر گرے تم نہ سن پائے صدا دل ٹوٹنے کی اور یہاں شور وہ اٹھا زمیں پر جس طرح امبر گرے کون جانے کتنی یادوں سے ہوا دل زخم زخم چاندنی برسی کہ ...

    مزید پڑھیے

    حسن آنکھوں میں رہے دل میں جوانی تو رہے

    حسن آنکھوں میں رہے دل میں جوانی تو رہے زندگانی تیرے ہونے کی نشانی تو رہے اس کی خاطر تو گوارا کوئی بن باس بھی ہے سب کے ہونٹوں پہ مری رام کہانی تو رہے ضبط میں یہ بھی ہے گویائی کا اپنا انداز لب ہوں خاموش مگر اشک فشانی تو رہے گر اجالوں سے گریزاں ہے دھندلکوں میں تو آ دن بہ ہر طور کٹا ...

    مزید پڑھیے

    کہیں فضا میں کوئی ابر تیرنا تو چاہئے

    کہیں فضا میں کوئی ابر تیرنا تو چاہئے کہاں ہوائیں کھو گئی ہیں سوچنا تو چاہئے یہ اور بات باغ باغ کر گئیں طبیعتیں ذرا قریب سے ہنسی کو دیکھنا تو چاہئے یہ مصلحت بھی کیا کہ دل کی وسعتیں ہوں منجمد رگوں میں زندگی کا خون دوڑنا تو چاہئے میں ان اداسیوں کو ان رفاقتوں کو کیا کروں کرن کو ...

    مزید پڑھیے

    دن نکلتا ہے تو سامان سفر ڈھونڈتے ہیں

    دن نکلتا ہے تو سامان سفر ڈھونڈتے ہیں رات پڑتی ہے تو ہم اپنی خبر ڈھونڈتے ہیں رابطہ کچھ تو رہے روح کا پاتال کے ساتھ آج ہم بھی تری آنکھوں میں بھنور ڈھونڈتے ہیں کوئی خوشبو نہ یہاں انجم و مہتاب کی ضو ان گھروں سے بہت آگے ہے جو گھر ڈھونڈتے ہیں عشق سے داد طلب ہیں کہ ہم آوارہ منش در میں ...

    مزید پڑھیے

    بجلی کڑکی بادل گرجا میں خاموش رہا

    بجلی کڑکی بادل گرجا میں خاموش رہا اس کہرام میں بھی اے دنیا میں خاموش رہا صبح کی چاپ نے مجھ کو صدا دی میں نے بات نہ کی شام کی چپ نے مجھ کو پکارا میں خاموش رہا کتنے گیت بکھیرتے موسم میرے سامنے آئے میں تھا جاتی رت کا سایا میں خاموش رہا گزرے میرے پاس سے ہو کر شور بھرے میلے سیل حوادث ...

    مزید پڑھیے

    عکس جا بہ جا اپنی ذات کے گراتا ہے

    عکس جا بہ جا اپنی ذات کے گراتا ہے کون آسمانوں سے آئنے گراتا ہے میں نے روپ دھارا ہے اس کی روح کا اور وہ میرے نقش ہی میرے سامنے گراتا ہے عمر بھر اٹھائے گا دکھ مرے بکھرنے کا آنکھ کی بلندی سے کیوں مجھے گراتا ہے شعلۂ محبت اور آب اشک اے ناداں روشنی کو دریا میں کس لئے گراتا ہے وہ ہوا ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2