عشرت ظفر کی غزل

    ہر ایک عہد میں جو سنگسار ہوتا رہا (ردیف .. ن)

    ہر ایک عہد میں جو سنگسار ہوتا رہا لہو لہو میں اسی حرف کے بدن میں ہوں زبان کیوں نہیں بنتی ہے ہم نوا دل کی یہ شخص کون ہے میں کس کے پیرہن میں ہوں مرے لہو سے ہی اس نے سپر کا کام لیا اسے خبر تھی کہ میں طاق اپنے فن میں ہوں ہر آئنہ میں ہے محفوظ میری ہی تصویر بہت دنوں سے میں خود اپنی انجمن ...

    مزید پڑھیے

    اٹھائے دوش پہ تاریخ حادثات جہاں

    اٹھائے دوش پہ تاریخ حادثات جہاں گزر رہا ہے دیار حیات سے انساں بچھا رہا ہے فضاؤں میں دام کاہکشاں ترے گداز بدن کا تبسم پنہاں لبوں پہ لاکھ لگائے کوئی سکوت کی مہر مگر خموشی نہ ہوگی جراحتوں کی زباں بھڑک اٹھے نہ کہیں پھر چراغ زخم کی لو سنبھل سنبھل کے سناؤ حدیث شہر بتاں دھواں دھواں ...

    مزید پڑھیے

    بہت ہے اب مری آنکھوں کا آسماں اس کو

    بہت ہے اب مری آنکھوں کا آسماں اس کو گیا وہ دور کہ تھی فکر آشیاں اس کو کیا ہے سلطنت دل پہ حکمراں اس کو نوازشوں کا سلیقہ مگر کہاں اس کو شگاف زخم جو میرا نہ کھل گیا ہوتا تو کیسے ملتی یہ شمشیر کہکشاں اس کو جدھر بھی جاتا ہے وہ شعلۂ بہار سرشت دعائیں دیتا ہے انبوہ کشتگاں اس کو خود اس ...

    مزید پڑھیے

    یہ کس نے کہہ دیا تجھ سے کہ ساحل چاہتا ہوں میں

    یہ کس نے کہہ دیا تجھ سے کہ ساحل چاہتا ہوں میں سمندر ہوں سمندر کو مقابل چاہتا ہوں میں وہ اک لمحہ جو تیرے قرب کی خوشبو سے ہے روشن اب اس لمحے کو پابند سلاسل چاہتا ہوں میں وہ چنگاری جو ہے مشاق فن شعلہ سازی میں اسے روشن تہہ خاکستر دل چاہتا ہوں میں بہت بے زار ہے عمر رواں صحرا نوردی ...

    مزید پڑھیے

    ساحل پہ سمندر کے کچھ دیر ٹھہر جاؤں

    ساحل پہ سمندر کے کچھ دیر ٹھہر جاؤں ممکن ہے کہ موجوں کے ماتھے پہ ابھر جاؤں تپتے ہوئے لمحوں کو سیراب تو کر جاؤں اک موج صدا بن کر صحرا میں بکھر جاؤں ہر سنگ ہے اک شیشہ ہر شیشہ ہے اک پتھر اے شہر طلسم آخر ٹھہروں کہ گزر جاؤں لاؤ نہ اجالوں کو اس شہر کی سرحد تک ایسا نہ ہو میں اپنے سائے سے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2