عشرت ظفر کی غزل

    جذب ہے خامشئ گل میں تکلم تیرا

    جذب ہے خامشئ گل میں تکلم تیرا جاوداں میرے چمن میں ہے تبسم تیرا باغ میں سیل نمو خیز کی ہلچل تیری دشت میں شور سپاہ مہ و انجم تیرا تیری مرہون نوازش مری سرشاری خاک مے کدہ تیرا مئے ناب تری خم تیرا خشک و تر پست و بلند آئینہ شام و سحر مہرباں سب پہ ہے سیلاب ترحم تیرا سب ترے زیر نگیں ...

    مزید پڑھیے

    ہر رگ خار کی تحویل میں خوں ہے میرا

    ہر رگ خار کی تحویل میں خوں ہے میرا بے کراں دشت دبستان جنوں ہے میرا نقش موہوم ہے سب وسعت ارض و افلاک میرے شہپر کے تلے صید زبوں ہے میرا شاخیں تلوار کی صورت ہیں گل و برگ ہیں سنگ دل کا یہ نخل گرفتار فسوں ہے میرا زخم کیا ہے کسی شمشیر نگہ کا اعجاز اشک کیا ہے ثمر فصل دروں ہے میرا ہجر ...

    مزید پڑھیے

    نہ سیل رنگ نہ سیارہ ماہتاب مرا

    نہ سیل رنگ نہ سیارہ ماہتاب مرا ہے میرے سینے میں انگارہ ماہتاب مرا چھٹی افق کی سیہ گرد تو دکھائی دیا پیام وصل کا ہرکارہ ماہتاب مرا خلا میں مضطرب و بے قیام میری طرح یہ میرے دشت کا بنجارہ ماہتاب مرا خنک ہواؤں کا مسکن بساط خاک مری لہو کی آنچ کا گہوارہ ماہتاب مرا چہار سمت مرے آب ...

    مزید پڑھیے

    سیاہ خانۂ جاں میں شرار شوق کی ہے

    سیاہ خانۂ جاں میں شرار شوق کی ہے یہ تازگی یہ دمک نو بہار شوق کی ہے تمام سبزہ و دیوار زرد ہے پھر بھی دبی دبی سی صدا آبشار شوق کی ہے یہی بدن سے بدن کا ہے والہانہ کلام مری رگوں میں جو مستی خمار شوق کی ہے نہ تند و تیز ہوا ہے نہ موج طوفاں خیز یہی تو عمر میاں کاروبار شوق کی ہے ہے دیدنی ...

    مزید پڑھیے

    فلک نے بھیجے ہیں کیا جانے کس وسیلے سے

    فلک نے بھیجے ہیں کیا جانے کس وسیلے سے لہو کے بحر میں بھی کچھ صدف ہیں نیلے سے ابھی تو قافلۂ باد سبز راہ میں ہے اسی لیے تو ہیں اشجار دشت پیلے سے جو میرے ساتھ ہے صدیوں سے مثل عکس بہار خبر نہیں کہ ہے وہ شخص کس قبیلے سے پڑا ہے کب سے سیہ پوش میرا دشت بدن چراغ اس میں جلا دے کسی بھی حیلے ...

    مزید پڑھیے

    چاروں طرف خلا میں ہے گہرا غبار سا

    چاروں طرف خلا میں ہے گہرا غبار سا پھر بھی کہیں پہ ہے یوں ہی کچھ آشکار سا کیا پھوٹتا ہے دل کی زمیں سے برنگ غم کیا تیرتا ہے آنکھ میں نقش بہار سا بکھرے ہیں میرے گرد نشان قدم مرے کھینچا ہے میں نے اپنے لیے بھی حصار سا فرصت جو ہو تو کھل کے برس میری خاک پر بن جاؤں میں بھی ایک شجر سایہ ...

    مزید پڑھیے

    میں بھی روشن ہوں جمال رخ جاناں میں کہیں

    میں بھی روشن ہوں جمال رخ جاناں میں کہیں خاک پروانہ بھی ہے شعلۂ عریاں میں کہیں کسی پیکر میں بھی پہچان نہیں ہے اس کی کیا سراغ اس کا ملے دشت و گلستاں میں کہیں ہجر کے داغ میں تبدیل ہوا لمحۂ وصل تھی کمی کوئی مرے شوق فراواں میں کہیں جل گیا باغ مگر شمع نمو خیز کی لو سبز ہے ہر شجر ...

    مزید پڑھیے

    زمیں غبار سمندر سحاب اپنی جگہ

    زمیں غبار سمندر سحاب اپنی جگہ مگر میں اور مرا اضطراب اپنی جگہ ہوا کی زد میں ہے ہر چیز خار و خس کی طرح کہو پڑے رہیں چپ چاپ خواب اپنی جگہ اگرچہ بکھری ہے راکھ اس کی میرے چاروں طرف وہ لمحہ اب بھی ہے اپنا جواب اپنی جگہ مرے عقب میں ہے آوازۂ نمو کی گونج ہے دشت جاں کا سفر کامیاب اپنی ...

    مزید پڑھیے

    مجھے کچھ اور بھی تپتا سلگتا چھوڑ جاتا ہے

    مجھے کچھ اور بھی تپتا سلگتا چھوڑ جاتا ہے سحاب اکثر میرے سینے پہ دریا چھوڑ جاتا ہے وہی اک رائیگاں لمحہ کہ میں جس کا شناور ہوں نگاہوں میں مری شہر تماشا چھوڑ جاتا ہے گزرتا ہے جس آئینے سے بھی موسم شراروں کا چمن کو ساتھ لے جاتا ہے صحرا چھوڑ جاتا ہے نواح دشت میں خوش منظری تقسیم کرتا ...

    مزید پڑھیے

    تہہ میں ہر پیکر کی اک پیکر ابھرتا ہے ترا

    تہہ میں ہر پیکر کی اک پیکر ابھرتا ہے ترا کون اظہار مسلسل روک سکتا ہے ترا قتل ہو جاتا ہے جب سورج دلوں کے دشت میں گہری ظلمت میں معاً شعلہ لپکتا ہے ترا نقش ابھرتے ہیں تری خوشبو کے سطح خاک پر بے صدا گنبد میں بھی طائر چہکتا ہے ترا ساغر گل سے ہزاروں رنگ اچھلتے ہیں ترے اسم اعظم سبز ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2