سیاہ خانۂ جاں میں شرار شوق کی ہے

سیاہ خانۂ جاں میں شرار شوق کی ہے
یہ تازگی یہ دمک نو بہار شوق کی ہے


تمام سبزہ و دیوار زرد ہے پھر بھی
دبی دبی سی صدا آبشار شوق کی ہے


یہی بدن سے بدن کا ہے والہانہ کلام
مری رگوں میں جو مستی خمار شوق کی ہے


نہ تند و تیز ہوا ہے نہ موج طوفاں خیز
یہی تو عمر میاں کاروبار شوق کی ہے


ہے دیدنی در و دیوار آرزو کی چمک
عجیب روشنی شمع مزار شوق کی ہے


نگاہ ناز فسوں آفریں کو ہے معلوم
کہ نوک ٹوٹی ہوئی دل میں خار شوق کی ہے


یہی ہے نقطۂ آغاز شہر گل عشرتؔ
اسی دیار میں خوشبو دیار شوق کی ہے