Irshad Ahmad Arshad

ارشاد احمد ارشد

  • 1954

ارشاد احمد ارشد کی غزل

    اے مورخ ملک کی تصویر لکھ

    اے مورخ ملک کی تصویر لکھ چل رہے ہیں نفرتوں کے تیر لکھ جاہلوں کی عزت توقیر لکھ عالم و فاضل کی ہے تحقیر لکھ بے گناہوں کی کوئی تقصیر لکھ پاؤں میں ڈالی ہوئی زنجیر لکھ کوشش پیہم عمل تدبیر لکھ تیرے ہاتھوں میں نہیں تقدیر لکھ بے حسی ارشدؔ میاں اچھی نہیں ذہن پر احساس کی زنجیر لکھ

    مزید پڑھیے

    ہنس کے سہہ لیں گے رنج و الم دیکھنا

    ہنس کے سہہ لیں گے رنج و الم دیکھنا مشکلوں میں بھی ثابت قدم دیکھنا دوستوں حوصلے ہوں نہ کم دیکھنا راستوں کے ذرا پیچ و خم دیکھنا بہہ رہا ہے جو دریائے جبر و ستم پار کر جائیں گے یہ بھی ہم دیکھنا اک تغیر زمانے کو دے جائیں گے تم ہمارا بھی زور قلم دیکھنا

    مزید پڑھیے

    سب کو دکھلاؤں گا ہنر اپنا

    سب کو دکھلاؤں گا ہنر اپنا چھوڑ جاؤں گا میں اثر اپنا ہے کٹھن راہ سے گزر اپنا ختم ہوتا نہیں سفر اپنا پھول اس کے شر بھی ہیں اس کے ہے لگایا ہوا شجر اپنا میرؔ و غالبؔ جدھر سے گزرے تھے ہے اسی راہ سے گزر اپنا بے قراری کی کیفیت ہے ادھر دل بھی بے چین ہے ادھر اپنا وہ کسی اور کا ہوا ...

    مزید پڑھیے

    میکدے کا نظام تھا کیا تھا

    میکدے کا نظام تھا کیا تھا ہر کوئی تشنہ کام تھا کیا تھا اک شکایت تھی سب کے ہونٹوں پر ساقیا تیرا نام تھا کیا تھا کس کے آنے کے منتظر تھے سبھی کس قدر اہتمام تھا کیا تھا اس طرف غول تھا پرندوں کا کچھ رکھا زیر دام تھا کیا تھا جس کو محسوس کر لیا میں نے وہ ترا انتقام تھا کیا تھا

    مزید پڑھیے