سب کو دکھلاؤں گا ہنر اپنا

سب کو دکھلاؤں گا ہنر اپنا
چھوڑ جاؤں گا میں اثر اپنا


ہے کٹھن راہ سے گزر اپنا
ختم ہوتا نہیں سفر اپنا


پھول اس کے شر بھی ہیں اس کے
ہے لگایا ہوا شجر اپنا


میرؔ و غالبؔ جدھر سے گزرے تھے
ہے اسی راہ سے گزر اپنا


بے قراری کی کیفیت ہے ادھر
دل بھی بے چین ہے ادھر اپنا


وہ کسی اور کا ہوا ارشدؔ
جس کو سمجھے تھے عمر بھر اپنا