Irfanullah Irfan

عرفان اللہ عرفان

عرفان اللہ عرفان کی غزل

    وہ میرے شہر میں آیا منافقت کیا ہے

    وہ میرے شہر میں آیا منافقت کیا ہے یہ اس نے آ کے بتایا منافقت کیا ہے مرے خلوص کو سمجھا گیا ہے نادانی فریب سامنے کھایا منافقت کیا ہے سبھی کو علم ہے ڈسنا ہے سانپ کی فطرت پھر اس میں اس کی خدایا منافقت کیا ہے وہ پھر سے ہاتھ ملانے کو میرے پاس آیا سوال میں نے اٹھایا منافقت کیا ہے سمٹ ...

    مزید پڑھیے

    عجیب شور ہے سارا جہان بولتا ہے

    عجیب شور ہے سارا جہان بولتا ہے مرے یقین کے آگے گمان بولتا ہے اسے کہو کہ وہ حصہ بنے کہانی کا یہ جو کوئی بھی پس داستان بولتا ہے سماعتوں پہ فسوں طاری ہونے لگتا ہے وہ ایسی شان سے اردو زبان بولتا ہے اسی کو حق ہے تری انجمن میں بولنے کا ترے حضور جو شایان شان بولتا ہے اسے سلیقہ نہیں ہے ...

    مزید پڑھیے

    ٹوٹتے خواب کی تعبیر سے اندازہ ہوا

    ٹوٹتے خواب کی تعبیر سے اندازہ ہوا مجھ کو شاید ذرا تاخیر سے اندازہ ہوا دونوں جانب سے مسلمان تھے مرنے والے آپ کو نعرۂ تکبیر سے اندازہ ہوا میرے پرکھوں کا مکاں مائل مسماری ہے حبس میں ٹوٹتے شہتیر سے اندازہ ہوا جھوٹ کے پاؤں بھی ہوتے ہیں اگر تو بولے آج مجھ کو تری تقریر سے اندازہ ...

    مزید پڑھیے

    یہ مرے چار سو اک تماشا لگے

    یہ مرے چار سو اک تماشا لگے عالم رنگ و بو اک تماشا لگے دیکھ چاروں طرف اک تماشا لگا چاہتا تھا نہ تو اک تماشا لگے در حقیقت یہ کوئی تماشا نہیں جو تجھے ہو بہ ہو اک تماشا لگے رنگ اڑنا مناسب ہے مے خوار کا ٹوٹنے سے سبو اک تماشا لگے پھوٹے زخم جگر اور بہے آنکھ سے تازہ تازہ لہو اک تماشا ...

    مزید پڑھیے

    اٹھتے ہیں قدم تیز ہوا ہے مرے پیچھے

    اٹھتے ہیں قدم تیز ہوا ہے مرے پیچھے لگتا ہے کوئی قافلہ سا ہے مرے پیچھے جس بزم میں جاتا ہوں مجھے ملتی ہے عزت وہ یوں کہ مری ماں کی دعا ہے مرے پیچھے بے منزل مقصود میں غلطاں ہوں سفر میں افسوس زمانے تو چلا ہے مرے پیچھے مڑنا ہے مجھے موڑ محبت کے نگر کو گاؤں کی مرے آب و ہوا ہے مرے ...

    مزید پڑھیے