Irfan Siddiqi

عرفان صدیقی

اہم ترین جدید شاعروں میں شامل، اپنے نوکلاسیکی لہجے کے لیے معروف

One of the most-prominent modern poets, famous for his neo-classical poetry.

عرفان صدیقی کی غزل

    کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں

    کاش میں بھی کبھی یاروں کا کہا مان سکوں آنکھ کے جسم پہ خوابوں کی ردا تان سکوں میں سمندر ہوں نہ تو میرا شناور پیارے تو بیاباں ہے نہ میں خاک تری چھان سکوں روئے دلبر بھی وہی چہرۂ قاتل بھی وہی تو کبھی آنکھ ملائے تو میں پہچان سکوں وقت یہ اور ہے مجھ میں یہ کہاں تاب کہ میں یاریاں جھیل ...

    مزید پڑھیے

    مجھے بچا بھی لیا چھوڑ کر چلا بھی گیا

    مجھے بچا بھی لیا چھوڑ کر چلا بھی گیا وہ مہرباں پس گرد سفر چلا بھی گیا وگرنہ تنگ نہ تھی عشق پر خدا کی زمیں کہا تھا اس نے تو میں اپنے گھر چلا بھی گیا کوئی یقیں نہ کرے میں اگر کسی کو بتاؤں وہ انگلیاں تھیں کہ زخم جگر چلا بھی گیا مرے بدن سے پھر آئی گئے دنوں کی مہک اگرچہ موسم برگ و ثمر ...

    مزید پڑھیے

    اس سے بچھڑ کے باب ہنر بند کر دیا

    اس سے بچھڑ کے باب ہنر بند کر دیا ہم جس میں جی رہے تھے وہ گھر بند کر دیا شاید خبر نہیں ہے غزالان شہر کو اب ہم نے جنگلوں کا سفر بند کر دیا اپنے لہو کے شور سے تنگ آ چکا ہوں میں کس نے اسے بدن میں نظر بند کر دیا اب ڈھونڈ اور قدر شناسان رنگ و بو ہم نے یہ کام اے گل تر بند کر دیا اک اسم جاں ...

    مزید پڑھیے

    تو انہیں یاد آئے گی اے جوئبار اگلے برس

    تو انہیں یاد آئے گی اے جوئبار اگلے برس اب تو لوٹے گی پرندوں کی قطار اگلے برس اور کچھ دن اس سے ملنے کے لیے جاتے رہو بستیاں بس جائیں گی دریا کے پار اگلے برس تم تو سچے ہو مگر دل کا بھروسہ کچھ نہیں بجھ نہ جائے یہ چراغ انتظار اگلے برس پہلے ہم پچھلی رتوں کے درد کا کر لیں حساب اس برس کے ...

    مزید پڑھیے

    سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا

    سرحدیں اچھی کہ سرحد پہ نہ رکنا اچھا سوچئے آدمی اچھا کہ پرندہ اچھا آج تک ہیں اسی کوچے میں نگاہیں آباد صورتیں اچھی چراغ اچھے دریچہ اچھا ایک چلو سے بھرے گھر کا بھلا کیا ہوگا ہم کو بھی نہر سے پیاسا پلٹ آنا اچھا پھول چہروں سے بھی پیارے تو نہیں ہیں جنگل شام ہو جائے تو بستی ہی کا رستہ ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے شاید ہی کبھی اس کی شناسائی ہو

    ہم سے شاید ہی کبھی اس کی شناسائی ہو دل یہ چاہے ہے کہ شہرت ہو نہ رسوائی ہو وہ تھکن ہے کہ بدن ریت کی دیوار سا ہے دشمن جاں ہے وہ پچھوا ہو کہ پروائی ہو ہم وہاں کیا نگہ شوق کو شرمندہ کریں شہر کا شہر جہاں اس کا تماشائی ہو درد کیسا جو ڈبوئے نہ بہا لے جائے کیا ندی جس میں روانی ہو نہ ...

    مزید پڑھیے

    عجیب نشہ ہے ہشیار رہنا چاہتا ہوں

    عجیب نشہ ہے ہشیار رہنا چاہتا ہوں میں اس کے خواب میں بیدار رہنا چاہتا ہوں یہ موج تازہ مری تشنگی کا وہم سہی میں اس سراب میں سرشار رہنا چاہتا ہوں سیاہ چشم مری وحشتوں پہ طنز نہ کر میں قاتلوں سے خبردار رہنا چاہتا ہوں یہ درد ہی مرا چارہ ہے تم کو کیا معلوم ہٹاؤ ہاتھ میں بیمار رہنا ...

    مزید پڑھیے

    ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے

    ہم سے وہ جان سخن ربط نوا چاہتی ہے چاند ہے اور چراغوں سے ضیا چاہتی ہے اس کو رہتا ہے ہمیشہ مری وحشت کا خیال میرے گم گشتہ غزالوں کا پتا چاہتی ہے میں نے اتنا اسے چاہا ہے کہ وہ جان مراد خود کو زنجیر محبت سے رہا چاہتی ہے چاہتی ہے کہ کہیں مجھ کو بہا کر لے جائے تم سے بڑھ کر تو مجھے موج ...

    مزید پڑھیے

    قدم اٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی

    قدم اٹھے تو گلی سے گلی نکلتی رہی نظر دیئے کی طرح چوکھٹوں پہ جلتی رہی کچھ ایسی تیز نہ تھی اس کے انتظار کی آنچ یہ زندگی ہی مری برف تھی پگھلتی رہی سروں کے پھول سر نوک نیزہ ہنستے رہے یہ فصل سوکھی ہوئی ٹہنیوں پہ پھلتی رہی ہتھیلیوں نے بچایا بہت چراغوں کو مگر ہوا ہی عجب زاویے بدلتی ...

    مزید پڑھیے

    در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں

    در و دیوار کی زد سے نکلنا چاہتا ہوں میں ہوائے تازہ تیرے ساتھ چلنا چاہتا ہوں میں وہ کہتے ہیں کہ آزادی اسیری کے برابر ہے تو یوں سمجھو کہ زنجیریں بدلنا چاہتا ہوں میں نمو کرنے کو ہے میرا لہو قاتل کے سینے سے وہ چشمہ ہوں کہ پتھر سے ابلنا چاہتا ہوں میں بلند و پست دنیا فیصلہ کرنے نہیں ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 5