اقبال طارق کی غزل

    مسلسل امتحاں سے تھک چکا ہوں

    مسلسل امتحاں سے تھک چکا ہوں میں اب عمر رواں سے تھک چکا ہوں مجھے اب خاک مرقد میں چھپا دو کہ جسم ناتواں سے تھک چکا ہوں کوئی تو آ بسے دل میں مرے بھی اب اس خالی مکاں سے تھک چکا ہوں اب اپنی ذات بھی ہے بوجھ مجھ پر میں اس کوہ گراں سے تھک چکا ہوں مرا رستہ تو طارقؔ کٹ گیا پر تمہاری داستاں ...

    مزید پڑھیے

    ہم آئنے میں جوانی تلاش کرتے رہے

    ہم آئنے میں جوانی تلاش کرتے رہے محبتوں کی کہانی تلاش کرتے رہے ہمارے دل پہ عجب اضطراب طاری رہا نظر نظر میں کہانی تلاش کرتے رہے شعور ماضی کے کرب و بلا میں الجھا رہا شراب ہم بھی پرانی تلاش کرتے رہے ہمارے عزم کی بنیاد کتنی گہری تھی وہ اک گھڑی تھی سہانی تلاش کرتے رہے نصیحتوں کا ...

    مزید پڑھیے

    درد سے یار چیخ اٹھے ہیں

    درد سے یار چیخ اٹھے ہیں سر بازار چیخ اٹھے ہیں تو کہانی میں کیوں ہوا شامل سارے کردار چیخ اٹھے ہیں جن کے منہ میں زبان تھی ہی نہیں وہ بھی اس بار چیخ اٹھے ہیں خود ہی آ اور آ کے دیکھ ذرا تیرے شہکار چیخ اٹھے ہیں تیری تصویر کیا لگی گھر میں در و دیوار چیخ اٹھے ہیں تیرا ستار ورد کرتے ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 2 سے 2