مسلسل امتحاں سے تھک چکا ہوں
مسلسل امتحاں سے تھک چکا ہوں
میں اب عمر رواں سے تھک چکا ہوں
مجھے اب خاک مرقد میں چھپا دو
کہ جسم ناتواں سے تھک چکا ہوں
کوئی تو آ بسے دل میں مرے بھی
اب اس خالی مکاں سے تھک چکا ہوں
اب اپنی ذات بھی ہے بوجھ مجھ پر
میں اس کوہ گراں سے تھک چکا ہوں
مرا رستہ تو طارقؔ کٹ گیا پر
تمہاری داستاں سے تھک چکا ہوں