Iqbal Sohail

اقبال سہیل

مجاہد آزادی ،وکیل ،1935میں یوپی کے قانون ساز اسمبلی کے لیے منتخب ہوئے

Prominent freedom fighter and lawyer who was elected to U.P legislative assembly in 1935

اقبال سہیل کی غزل

    کہاں طاقت یہ روسی کو کہاں ہمت یہ جرمن کو

    کہاں طاقت یہ روسی کو کہاں ہمت یہ جرمن کو کہ دیکھے چشم کج سے بھی مری شاخ نشیمن کو وفا دشمن یہ عالم اب تو ہے تیری نوازش سے کہ رحم آنے لگا میری زبوں حالی پہ دشمن کو نہ اب صیاد کا کھٹکا نہ اب گلچیں کا اندیشہ کرم نے باغباں کے پھونک ڈالا میرے گلشن کو بھلا ان بجلیوں کی شعلہ سامانی کو ...

    مزید پڑھیے

    اب دل کو ہم نے بندۂ جاناں بنا دیا

    اب دل کو ہم نے بندۂ جاناں بنا دیا اک کافر ازل کو مسلماں بنا دیا دشواریوں کو عشق نے آساں بنا دیا غم کو سرور درد کو درماں بنا دیا اس جاں فزا عتاب کے قربان جائیے ابرو کی ہر شکن کو رگ جاں بنا دیا برق جمال یار یہ جلوہ ہے یا حجاب چشم ادا شناس کو حیراں بنا دیا اے ذوق جستجو تری ہمت پہ ...

    مزید پڑھیے

    نہ رہا ذوق رنگ و بو مجھ کو

    نہ رہا ذوق رنگ و بو مجھ کو اب نہ چھیڑ اے بہار تو مجھ کو اب اگر ہیں کہیں تو دیں آواز کیوں پھراتے ہیں کو بہ کو مجھ کو اب کسی اور کی تلاش نہیں ہے خود اپنی ہی جستجو مجھ کو نہ رہا کوئی تار دامن میں اب نہیں حاجت رفو مجھ کو ہائے اس وقت حال دل پوچھا جب نہ تھی تاب گفتگو مجھ کو

    مزید پڑھیے

    صدا فریاد کی آئے کہیں سے

    صدا فریاد کی آئے کہیں سے وہ ظالم بد گماں ہوگا ہمیں سے خدا سمجھے بت سحر آفریں سے گریباں کو لڑایا آستیں سے چمن ہے شعلۂ گل سے چراغاں بہار آئی نوائے آتشیں سے خرد ہے اب بھی جس کے حل سے عاجز وہ نکتے حل کیے ہم نے یقیں سے سلامت وسعت آباد محبت بہت آگے ہیں ہم دنیا و دیں سے معاذ اللہ جلال ...

    مزید پڑھیے

    انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے

    انجام وفا بھی دیکھ لیا اب کس لیے سر خم ہوتا ہے نازک ہے مزاج حسن بہت سجدے سے بھی برہم ہوتا ہے مل جل کے بہ رنگ شیر و شکر دونوں کے نکھرتے ہیں جوہر دریاؤں کے سنگم سے بڑھ کر تہذیب کا سنگم ہوتا ہے کچھ ما و شما میں فرق نہیں کچھ شاہ و گدا میں بھید نہیں ہم بادہ کشوں کی محفل میں ہر جام بکف جم ...

    مزید پڑھیے

    زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے

    زبانوں پر نہیں اب طور کا فسانہ برسوں سے تجلی گاہ ایمن ہے دل دیوانہ برسوں سے کچھ ایسا ہے فریب نرگس مستانہ برسوں سے کہ سب بھولے ہوئے ہیں کعبہ و بت خانہ برسوں سے وہ چشم فتنہ گر ہے ساقئ مے خانہ برسوں سے کہ باہم لڑ رہے ہیں شیشہ و پیمانہ برسوں سے نہ اب منصور باقی ہے نہ وہ دار و رسن ...

    مزید پڑھیے

    پیغام رہائی دیا ہر چند قضا نے

    پیغام رہائی دیا ہر چند قضا نے دیکھا بھی نہ اس سمت اسیران وفا نے کہہ دوں گا جو کی پرسش اعمال خدا نے فرصت ہی نہ دی کشمکش بیم و رجا نے ہے رشک ارم وادی پر خار محبت شاید اسے سینچا ہے کسی آبلہ پا نے یہ خفیہ نصیبی کہ ہوئے اور بھی غافل نغمے کا اثر ہم پہ کیا شور درا نے خاکستر دل میں تو نہ ...

    مزید پڑھیے

    حسن فطرت کی آبرو مجھ سے

    حسن فطرت کی آبرو مجھ سے آب و گل میں ہے رنگ و بو مجھ سے میرے دم سے بنائے مے خانہ ہستئ شیشہ و سبو مجھ سے مجھ سے آتش کدوں میں سوز و گداز خانقاہوں میں ہائے و ہو مجھ سے شبنم ناتواں سہی لیکن اس گلستاں میں ہے نمو مجھ سے اک تگاپوئے دائمی ہے حیات کہہ رہی ہے یہ آب جو مجھ سے طاقت جنبش نظر ...

    مزید پڑھیے

    جو تصور سے ماورا نہ ہوا

    جو تصور سے ماورا نہ ہوا وہ تو بندہ ہوا خدا نہ ہوا دل اگر درد آشنا نہ ہوا ننگ ہستی ہوا ہوا نہ ہوا رتبہ داں تھا جبین عشق کا میں حسن کے در پہ جبہہ سا نہ ہوا دل خطاوار اشتیاق سہی لب گنہ گار التجا نہ ہوا ننگ ہے بے عمل قبول بہشت یہ تو صدقہ ہوا صلا نہ ہوا

    مزید پڑھیے

    زنداں نصیب ہوں مرے قابو میں سر نہیں

    زنداں نصیب ہوں مرے قابو میں سر نہیں میرا سجود ان کے لیے معتبر نہیں کیا ہے فریب نرگس غماز اگر نہیں بے وجہ تو کشاکش قلب و جگر نہیں تقسیم گل پہ بحث عنادل میں چھڑ گئی گلزار لٹ رہا ہے کچھ اس کی خبر نہیں لذت شناس غم کو ہے اظہار غم حرام روتا ہوں اور دامن مژگاں بھی تر نہیں میرے سجود ...

    مزید پڑھیے
صفحہ 1 سے 2