برق ملتی ہے نہ تنکوں کو شرر ملتا ہے
برق ملتی ہے نہ تنکوں کو شرر ملتا ہے دل کو برسات میں بے برگ شجر ملتا ہے اس کی گرمئ سخن راس نہ آئی اس کو اب وہ ملتا ہے تو کیا خاک بسر ملتا ہے صرف جینے کی ہوس ساتھ رہے تو شاید عمر کے ساتھ ہر اک گام پہ در ملتا ہے چار دیواری سے شاید نہیں کچھ اس کو مفر گھر کے باہر وہ بہ انداز دگر ملتا ...