Iqbal Khalish

اقبال خلش

  • 1950

اقبال خلش کی غزل

    ہر لفظ ہے نوشتۂ دیوار کی طرح

    ہر لفظ ہے نوشتۂ دیوار کی طرح سچ بولتا ہے وہ مرے اشعار کی طرح ماں ہے عظیم نور کے مینار کی طرح غصہ تو کر رہی ہے مگر پیار کی طرح گر سوچئے مہاجر و انصار کی طرح جذبہ نہیں ہے جذبۂ ایثار کی طرح دنیا سے پیش آئیے بیزار کی طرح پیچھے پھرا کرے گی طلب گار کی طرح خوشبوئے دوستاں تو ہوا پر سوار ...

    مزید پڑھیے

    بھلے ہی ہست سے نابود ہوتا

    بھلے ہی ہست سے نابود ہوتا زیاں میرا کسی کا سود ہوتا میں جس کی آرزو میں مر رہا ہوں تصور میں تو وہ موجود ہوتا جمی ہے مصلحت کی برف ورنہ ہمارا حوصلہ بارود ہوتا ہوس کیونکر تمہیں بے چین کرتی سکون دل اگر مقصود ہوتا جو ہم کرتے نہ عزم حق نوائی امیر شہر کیوں نمرود ہوتا حسد کا تیل ہے ...

    مزید پڑھیے

    مآل احتساب یہ کہ ہم بڑے خراب ہیں

    مآل احتساب یہ کہ ہم بڑے خراب ہیں کسی پہ طنز کیا کریں کہ خود ہی آب آب ہیں بصیرتوں کے ارتقا کی انتہا ہے آگہی مری نظر سے دیکھیے تو خواہشیں سراب ہیں کسی کا درد دیکھ کر تڑپ گئے تو رو دئیے شعار درد مند کو بصارتیں عذاب ہیں بہ اعتبار علم جن کی حیثیت فقیر سی بہ اعتبار مال و زر وہ صاحب ...

    مزید پڑھیے

    وہ ہوا پر سوار ہے سو ہے

    وہ ہوا پر سوار ہے سو ہے کبر اس کا مدار ہے سو ہے خود نمائی شعار ہے سو ہے آدمی اشتہار ہے سو ہے رائیگاں ہے مرا خلوص وفا وہ انا کا شکار ہے سو ہے لاکھ منت کرے سکھی حاتم بھیک سے ہم کو عار ہے سو ہے فقر و فاقہ نہیں ہے مجبوری یہ ہمارا شعار ہے سو ہے بار احساں اتارئیے کیسے نقد جاں مستعار ...

    مزید پڑھیے