مآل احتساب یہ کہ ہم بڑے خراب ہیں

مآل احتساب یہ کہ ہم بڑے خراب ہیں
کسی پہ طنز کیا کریں کہ خود ہی آب آب ہیں


بصیرتوں کے ارتقا کی انتہا ہے آگہی
مری نظر سے دیکھیے تو خواہشیں سراب ہیں


کسی کا درد دیکھ کر تڑپ گئے تو رو دئیے
شعار درد مند کو بصارتیں عذاب ہیں


بہ اعتبار علم جن کی حیثیت فقیر سی
بہ اعتبار مال و زر وہ صاحب نصاب ہیں


خرد تمام مسئلوں کا حل جنوں سے پوچھتی
جواب ایک چاہئے سوال بے حساب ہیں


ہمارے بعد کسمپرسیٔ غزل کا دور ہے
ہمیں تو خیر چند قارئین دستیاب ہیں